وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے

ملکی سیاست عجیب دوراہے پر پہنچ چکی ہے، کہنے کو تو سوشل میڈیا کے سبب ہم نے بہت ترقی کر لی ہے، قوم میں شعور آ گیا ہے، نوجوان نسل متحرک ہوئی ہے‘ وغیرہ وغیرہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو قوم میں شعور آیا ہے اور نہ ہی ہماری نوجوان نسل متحرک ہوئی ہے؛ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا نے ہماری نوجوان نسل کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے۔ سوشل میڈیائی دانشور قوم کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس وقت کیا چیز مارکیٹ میں اتارنی ہے تاکہ بزنس چل سکے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح اپنی کوئی وڈیو، تصویر یا خبر وائرل کر کے پیسے کمانے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دانشوروں (بیوپاریوں) میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے اور اصول و ضوابط سے عاری لوگ ہیں جنہیں سچ اور جھوٹ سے کوئی غرض نہیں، جنہیں مثبت اور منفی کا فرق معلوم ہی نہیں، جنہیں ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کا کوئی پاس نہیں۔ انہیں ہمارے رسم و رواج کا علم ہے اور نہ ہی علاقائی و ثقافتی روایات کا کوئی لحاظ۔ انہیں تو صرف یہ پتا ہے کہ ڈالرز ان کے اکائونٹ میں اسی صورت آئیں گے جب ان کی کوئی خبر، تصویر یا وڈیو وائرل ہو گی اور اس کے لیے انہیں منفی پہلو کا سہارا لینا پڑتا ہے، سچ سے زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ جب وہ اخلاقیات کو چھوڑ کر جھوٹ، سنسنی اور عریانی کا سہارا لیتے ہیں تو مطلوبہ نتائج جلدی برآمد ہوتے ہیں۔ ان کے ذہن ایسے مادہ پرست ہو چکے ہیں کہ انہیں صرف ڈالروں سے غرض ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات واضح رہے کہ سوشل میڈیا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی سنجیدہ اور بڑی اچھی فیملیوں سے تعلق رکھنے والے معزز صحافی، وکلا، سیاستدان، شاعر، ادیب، آرٹسٹ اور کھلاڑی بھی وابستہ ہیں لیکن ان کا تناسب شاید بیس فیصد بھی نہیں اور اسّی فیصد سے زائد وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر کی سطور میں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی 'بیوپاری‘ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی خبر گھڑتا ہے اور پھر اسے سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کر دیتا ہے۔ یوں ایک جھوٹی افواہ جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر بلکہ پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اس سوشل میڈیا کی ترقی نے کئی ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے، کئی خاندانوں کے چراغ گُل کیے، نجانے دعا زہرا جیسی کتنی لاڈلی بیٹیوں کو ماں باپ سے دور کر دیا اور خدا جانے کتنے والدین اولاد کی منفی سرگرمیوں سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو گئے۔
بدقسمتی سے آج کل ہماری سیاست بھی سوشل میڈیا کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہمارے سیاست دان بھی وہی بیانات دیتے ہیں جو وائرل ہو سکیں، اس مقصد کی خاطر بعض اوقات وہ قومی سلامتی اور اجتماعی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتیں الیکشن سے قبل اپنا منشور پیش کرتی تھیں جس میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اور قومی ترقی و استحکام کی پالیسیاں شامل ہوتی تھیں لیکن اب منشور یا پالیسی کے بجائے کوئی ایسا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے جو عوام‘ خصوصاً نوجوان نسل میں مقبول ہو سکے، جو ایک نعرہ بن سکے اور جس کے پیچھے وہ اپنی کارکردگی کو چھپا سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ سیاست دان‘ جنہیں ہم اپنا لیڈر سمجھتے ہیں‘ قومی اداروں پر غیر ضروری تنقید سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اپنے بیانیے کو پروان چڑھانے کے لیے ملکی اداروں کو بھی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے جس سے ہمارے دشمنوں کو وطن عزیز کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست اب نظریات کے بجائے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار سے باہر‘ اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کے نعرے، دعوے، وعدے اور بیانیے مختلف ہوتے ہیں لیکن جب وہ پارٹی حکومت میں آ جاتی ہے تو اس کے رہنمائوں کی آنکھیں ماتھے پر آ جاتی ہیں، پھر وہ عوام کو اپنی مجبوریاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے سیاست دانوں میں یہی قدر مشترک چلی آ رہی ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں۔ اپوزیشن میں شامل ہر چھوٹی بڑی پارٹی ایک طرف قومی اداروں پر تنقید کرکے اپنا بیانیہ وائرل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ساتھ ہی ساتھ بیک ڈور رابطے استوار کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے تاکہ حصولِ اقتدار میں مدد مل سکے یعنی ہمارے اپوزیشن رہنما وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی جماعت حکومت میں آ جاتی ہے تو پھر سیاسی لیڈران اپنے اقتدار کو طول دینے اور استحکام بخشنے کے لیے وہی سب کچھ کرنے لگتے ہیں جسے وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے غلط، جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات کے برعکس قرار دیتے ہیں۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد موجودہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں قومی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنا بیانیہ 'ووٹ کو عزت دو‘ عوام کے سامنے پیش کر کے جمہور کی حکومت کا خواب دکھاتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ روایتی اشرافیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی رہی لیکن جب اقتدار ملا تو پھر وہ سب کچھ اسے بھلا لگنے لگا۔ اسی طرح 2018ء میں جب پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تھی تو اس کی لیڈر شپ بڑے فخر سے کہتی تھی کہ ادارے اور حکومت ایک پیج پر ہیں، مقتدرہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں ملکی اداروں کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے، یعنی اس وقت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف اور کئی دیگر جماعتیں اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں جبکہ پی ٹی آئی خود کو ان کی حمایت میسر ہونے کا نعرہ لگا رہی تھی لیکن جونہی خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور انہیں ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونا پڑا‘ ان کی قومی اداروں کے حوالے سے سوچ بھی بدل گئی اور انہوں نے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مطلب‘ جسے اقتدار مل جائے اس کے لیے تمام ادارے ٹھیک اور سب کچھ قابلِ قبول ہے اور جسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے تو پھر اس کا ملبہ وہ اداروں پر ڈال دیتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی پارلیمانی۔
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سیاست دان ایک طرف اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بیک ڈور پالیسی کے تحت منت، سماجت کر رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دور میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز اداروں پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہوتے تھے اور شہبازشریف صاحب پارٹی کے کئی لیڈروں کے ہمراہ بیک ڈور ملاقاتیں اور مذاکرات کر رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح جب خان صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو پہلے کچھ دن تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ حالانکہ انہیں آئینی طریقے (تحریک عدم اعتماد) کے ذریعے نکالا گیا، پھر انہوں نے آہستہ آہستہ اداروں پر تنقید شروع کر دی لیکن اب واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ خان صاحب بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف بیک ڈور سے حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو چاہئے کہ وکٹ کے ایک ہی طرف کھیلیں، وقتی فوائد کے لیے عوام کو جھانسہ دینے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس پالیسیاں بنائیں اور نت نئے بیانیے پیش کرنے کے بجائے اپنا منشور پیش کر کے اس پر عمل کریں۔ ترجمان پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ بار بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ سیاست دان اپنے معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں اور اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں لیکن شاید اقتدار کے نشے نے سیاسی اقدار، جمہوری روایات اور اخلاقیات سمیت سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں