مقابلہ کھیل کا ہو یا انتخابات سمیت کسی بھی میدان کا‘ ہارجیت تو ہوتی ہی ہے۔ ایک فریق مقابلہ جیت جاتا ہے اور اس کے مدمقابل کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے، لیکن کھلاڑی کی تربیت کا سب سے اہم جزو سپورٹس مین سپرٹ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھیلوں کا کوئی بھی مقابلہ‘ خواہ وہ انفرادی ہو یا ٹیم ایونٹ‘ شروع ہونے سے پہلے بھی کھلاڑی آپس میں مصافحہ کرتے ہیں یا آداب بجا لاتے ہیں اور مقابلے کے اختتام پر یعنی ہار جیت کا فیصلہ ہونے کے بعد بھی ایک دوسرے کوگلے لگاتے ہیں یاکم از کم ہاتھ ضرور ملاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدان میں سخت ترین روایتی حریف بائونڈری سے باہر ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی اچھے مراسم رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی جانب سے روایتی حریف بھارت کے سابق کپتان ویرات کوہلی کے لیے مشکل وقت میں حوصلہ افزائی اور اس کے جواب میں کوہلی کی جانب سے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے لیے نیک تمنائوں کا پیغام ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ٹوکیو اولمپکس مقابلوں کے دوران پاکستانی جیولین تھرو اولمپین ارشد ندیم نے مقابلے سے قبل جذبۂ خیر سگالی کے طور پر اپنا نیزہ انڈین اتھلیٹ کو دے دیا تھا جسے قوم نے تنقید کے بجائے مثبت اقدام قرار دیا تھا۔ کھیل کے میدان میں مختلف ممالک کے سپر سٹارز کی جانب سے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور ہمارے ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں انتخابی نتائج ہمیشہ متنازع ہی رہتے ہیں۔ الیکشن کسی بھی سطح، شعبے یا خطے میں ہوں‘ جیتنے والا فتح کا جشن مناتے وقت کسی نہ کسی انداز میں اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرور کرتا ہے جبکہ شکست خوردہ اکثر نتائج کو دل سے تسلیم نہیں کرتا اور اپنے مدمقابل پر دھاندلی سمیت منفی ذرائع استعمال کرنے کے الزامات عائد کرتا ہے۔
ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک لبیک پاکستان، مسلم لیگ (ق)، پاکستان عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور انتخابی اتحادوں نے فتح پر ایسے جشن منائے اور تقاریر کیں کہ مخالفین کو ہر ممکن حد تک زچ کر سکیں جبکہ شکست کی صورت میں ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا، شدید احتجاج کیاگیا حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ایک سو چھبیس روز تک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا جس میں مخالف قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک سمیت تقریباً سبھی اپوزیشن جماعتوں نے ان نتائج کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا اوراپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں جب تحریک انصاف کو برتری حاصل ہوئی تو مسلم لیگ نواز نے مینڈیٹ چوری ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے 'ووٹ کوعزت دو‘ کے بیانیے کے تحت انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ امسال اپریل میں جب سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گئی تو خان صاحب نے ایک بار پھر اسمبلی کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجی سیاست شروع کر دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں پارٹی قیادت کے فیصلوں سے انحراف کرنے اور مخالف جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینے والے منحرف ارکان صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کی خالی ہونے والی بیس نشستوں پر سترہ جولائی کو ضمنی الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ ملک بھر میں پائی جانے والی سخت سیاسی کشیدگی کے پیش نظر ان انتخابات میں موجودہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی حکمران اتحاد پر دھاندلی اور ریاستی مشینری و اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کرتی رہی جبکہ سرکار کی جانب سے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں پر مسلح جتھے پنجاب میں لانے اور نقضِ امن کے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے۔ الیکشن کے دن تک سخت کشیدگی پائی جاتی تھی اور عوامی سطح پر بھی ملے جلے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ انتخابی معرکہ مار دھاڑ، چھینا جھپٹی اور مسلح تصادم سے بھرپور ہو گا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی بہترین حکمت عملی کے باعث پنجاب کے تمام انتخابی حلقوں میں مجموعی طور پر پولنگ کا عمل خاصا پُرامن رہا۔ کئی جگہوں پر لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کے اکا دکا واقعات ضرور پیش آئے مگر مجموعی طور پر انتخاب پُرامن تھا۔ اس بار ماضی کے ضمنی انتخابات کے مقابلے میں ٹرن آئوٹ بھی خاصا زیادہ رہا اور کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا جس پر قومی اداروں اور انتظامیہ کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ووٹرز (عوام) بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسے ملک میں ایک مثبت روایت کا آغاز بھی کہا جا سکتا ہے۔
کشیدگی کے اس ماحول میں سب اچھی خبر ملتان سے آئی جسے ملکی سیاست کے لیے قابل تقلید مثال اور بہترین سپورٹس مین سپرٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ حلقہ پی پی 217 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار زین قریشی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سلمان نعیم نے الیکشن آفس میں ایک ساتھ نتائج دیکھے، ضمنی الیکشن کا یہ بڑا دنگل تو زین قریشی نے جیت لیا لیکن دل سلمان نعیم نے جیت لیے۔ سلمان نعیم نے زین قریشی کی فتح پر انہیں کھلے دل سے مبارکباد دی، مسکرا کر ان سے مصافحہ کیا۔ زین قریشی نے بھی خوش دلی سے ان کی مبارکباد وصول کی۔ کیمرے نے اس خوشگوار لمحے کو محفوظ کر لیا اور پھر یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد پسند کیا گیا اور سلمان نعیم کے اس عمل کو بہت سراہا گیا۔ اس واقعے نے دونوں اطراف پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے اور خوشگوار سیاسی ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد مسلم لیگی رہنما ملک احمد خان نے پارٹی موقف پیش کرتے ہوئے ضمنی الیکشن میں شکست تسلیم کر کے مذکورہ بالا روایت کو مزید تقویت دی۔ انہوں نے کہا کہ دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو تاریخی فتح حاصل ہوئی ہے، عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے، الیکشن کے نتائج بتا رہے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں رہے گی، پنجاب حکومت ہمارے ہاتھ سے جا رہی ہے، وفاق میں اتحادی حکومت ہے، فیصلہ قیادت نے کرنا ہے۔ پنجاب میں حکومت اب لامحالہ تحریک انصاف ہی بنائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے بھی عوام کی رائے کا احترام کرنے کا کہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنا چاہئیں، عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دل بڑا کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنمائوں سینیٹر فیصل جاوید اور عثمان سعید بسرا نے بھی پی ٹی آئی کے کارکنان سے درخواست کی ہے کہ وہ اس فتح کو خدا کی آزمائش سمجھیں اور اس کا شکر ادا کریں‘ کسی کی تضحیک اور ٹرولنگ مت کریں۔
ضمنی الیکشن ہو چکے‘ کس کی حکومت بنتی ہے یا کون ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتا ہے‘ ان باتوں سے قطع نظر خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار عوام نے کسی دبائو کے بغیر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا اور کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ سب سے اہم یہ کہ الیکشن ہارنے والی جماعتوں اور امیدواروں نے اداروں یا مخالفین پر الزامات عائد کرنے کے بجائے بہترین سپورٹس مین سپرٹ کامظاہرہ کیا اور نتائج کوکھلے دل سے تسلیم کیا جسے ملک میں جمہوری استحکام کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ بائیس جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں بھی ایسا ہی مثبت رویہ نظر آئے گا۔ اس مثبت روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔