2018ء کے عام انتخابات کے بعد ملک کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں جلد از جلد نئے‘ صاف و شفاف انتخابات کامطالبہ کر چکی ہیں۔ تمام اہم سیاسی رہنما ملک کو سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے کا واحد اور آخری حل کسی بھی مداخلت سے پاک عام انتخابات کو قرار دے چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی اور عمران خان وزیراعظم بنے تھے تو پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) سمیت اپوزیشن کی متعدد جماعتیں مینڈیٹ چوری ہونے کا الزام عائد کرتی رہیں، دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جاتا رہا، مسلم لیگ (ن) نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ پیش کیا‘ اس مقصد کیلئے لانگ مارچ، ریلیاں، جلسے و جلوس اور بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ جے یو آئی ایف نے بھی مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دو لانگ مارچ کیے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھرپور پاور شو کے ساتھ دھرنا دیا۔ بتانے والے یہی بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب کو جلد نئے انتخابات کرانے کی یقین دہانی کروا کر دھرنا ختم کرایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی بھی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں گزشتہ عام انتخابات کو غیر شفاف قرار دیتی رہی اور پی ٹی آئی حکومت پر شدید تنقید کرتی رہی؛ تاہم ان کی جانب سے اسمبلیاں توڑ کر دوبارہ الیکشن کے مطالبے میں زور اس لیے نہیں تھا کہ وہ سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی گزشتہ انتخابات پر کئی تحفظات تھے جن کا اس نے متعدد بار اظہار بھی کیا لیکن چونکہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی بھی تھی‘ اس لیے کبھی ہاں، کبھی ناں والی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے اپنے مطالبات منواتی رہی۔ پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور دیگر کئی پارٹیاں بھی اپنے تحفظات ظاہر کرتی رہیں، لیکن سب سے زیادہ زور اب وفاق میں برسر اقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دیا اور حکومت کو گھر بھیجنے اور نئے انتخابات کو ہی وہ ملکی بحرانوں کا آخری حل قرار دیتی رہی۔ یہی وہ بیانیہ اور مطالبہ تھا جس کے لیے سابق اپوزیشن رہنمائوں اورموجودہ حکمرانوں نے مقدمات، نیب کی پیشیاں، گرفتاریاں اور جیل کی سختیاں بھی برداشت کیں لیکن اپنے مطالبے پر اس وقت تک ڈٹے رہے جب تک سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گئی۔
اُدھر پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی کرسی بچانے کیلئے ہر کوشش کی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے اور ان کی حکومت کا بچنا ناممکن ہو چکاہے تو اس وقت کے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا، جس کے بعد وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسمبلی تحلیل کر دی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ بظاہر تو تحریک اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے کے باوجود مخالف جماعتوں کا انتخابات کا مطالبہ پورا ہوگیا تھا مگر انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کیا اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا۔ اس وقت بھی عمران خان اور ان کی پارٹی کے پاس موقع تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے لیکن وہ اس وقت ڈٹ گئے اور عدم اعتماد کا پراسیس مکمل ہونے دیا جس کے بعد بالآخر وہ اپنی ڈائری اٹھا کر وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر چل دیے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں اتحادی حکومت مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی سربراہی میں بنی۔ اب ان کے پاس اختیار آ گیا تھاکہ وہ گزشتہ چار برس سے اپنی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کے بیانیے کو عزت دیتے اور اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے عام انتخابات کی طرف چلے جاتے لیکن شاید اقتدار چیز ہی ایسی ہے جو چھوڑنے پر کسی کا دل نہیں کرتا۔
حکومت میں آنے کے بعد تب کی اپوزیشن کا بیانیہ بدل چکا ہے، بلکہ آج کی اپوزیشن جماعت یعنی پی ٹی آئی بھی اب اپنے موقف سے ہٹ چکی ہے۔ کل تک اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کی بات کرنے والے خان صاحب اپوزیشن میں آتے ہی اب فوری طور پر نئے صاف و شفاف انتخابات کی بات کرنے لگے ہیں جبکہ چار سالوں سے فوری الیکشن کا مطالبہ کرنے والی گیارہ پارلیمانی جماعتیں اقتدار ملتے ہی اپنا بیانیہ بھول گئی ہیں اور اب ان کی طرف سے کہا جانے لگا ہے کہ پی ٹی آئی فوری انتخابات کو بھول جائے، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ موجودہ حکمران شاید یہ بھول گئے ہیں کہ یہ مطالبہ تو خود ان کا اپنا تھا اور وہ اسے ہی معاشی و سیاسی استحکام کا آخری حل قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی دوران ادھر پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے چند منحرف اراکین کے ساتھ مل کر مسلم لیگ (ن) اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز ہو گئے لیکن پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کا اعلان کیا۔ ان فیصلہ کن انتخابات میں ہی یہ طے ہونا تھا کہ پنجاب کا اقتدار کس کی جھولی میں گرے گا۔ ان انتخابات میں غیر متوقع طور پر عوام نے شیر کے بجائے بلے پر زیادہ مہریں لگائیں اور یوں اب پھر پنجاب کی پَگ تبدیل ہونے کا ماحول بن چکا ہے۔ مبصرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد ملک کے دو اہم صوبوں‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر کے عمران خان نئے انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں ۔
موجودہ حکمران اتحاد نے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہاتھوں سے نکلتا دیکھنے کے باوجود اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے اور فوری الیکشن نہ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کا موقف ہے کہ قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن نہیں۔ اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت مشکل حالات ہیں تو مستقبل قریب میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں نکلنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت ڈالر بے لگام ہو چکا ہے، پٹرولیم مصنوعات پھر مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ بجلی روز بروز مہنگی سے مہنگی تر ہونے کے ساتھ ساتھ نایاب بھی ہوتی جا رہی ہے اور ان ساروں بحرانوں کے فوری خاتمے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 'ڈو مور‘ کے مطالبے ختم نہیں ہو رہے، ایسے میں سمجھ نہیں آتی کہ حکمران اتحاد چاہتا کیا ہے کیونکہ وہ جتنا عرصہ حکومت میں رہیں گے‘ عوامی مسائل ان کے ہی گلے پڑتے رہیں گے اور اس کا سارا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا۔
ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور دیگر رہنمائوں کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کا عمل ایک اعلیٰ اور مثبت روایت قرار دی جا رہی ہے لیکن اب عددی اکثریت کھونے کے باوجود پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا دفاع کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہمارے سیاستدان کس طرح قوم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں، ان کے بیانات اور پالیسیوں میں کوئی پختگی نہیں ہوتی۔ اپوزیشن میں ان کا مطالبہ اور بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب اقتدار مل جائے تو پھر ان کے طور اطوار اور فکر و نظریات‘ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام پانچ سال کا مینڈیٹ دیتے ہیں اور اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے کاحق ہے لیکن اگر اسی اصول پر کاربند رہا جائے تو اقتدار پی ٹی آئی جیسی اکثریتی جماعت کا حق تھا۔ اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہی نہ لائی جاتی اور اسے مدت پوری کرنے دیتے تاکہ سب مسائل کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اس وقت تمام بحرانوں کا واحد اور آخری حل فوری اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہیں تاکہ عوام اپنی مرضی سے اپنے نئے نمائندے منتخب کریں جو پانچ سال کے مینڈیٹ کی بنا پر ٹھوس فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہوں۔