مفادات کی سیاست اورسادہ لوح عوام

کسی شخص نے ایک ای میل بھیجی ہے‘ جس پر بھیجنے والے کا نام اور پتا تو نہیں درج لیکن اس کا متن پڑھنے والے کو ایک بار سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتا ہے۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی عبارت کا متن ہے ''پاکستان میں صدرِ مملکت پی ٹی آئی سے، وزیراعظم پاکستان مسلم لیگ (ن) سے، وفاقی وزیر خارجہ پیپلز پارٹی سے، وزیراعلیٰ پنجاب مسلم لیگ (ق) سے، گورنر پنجاب مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی سرکار ہے‘ بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں شریکِ اقتدار ہیں جبکہ جے یو آئی (ایف)، ایم کیو ایم، اے این پی، بی اے پی اور آزاد ارکان سمیت لگ بھگ سبھی پارلیمانی باقی جماعتیں وفاقی حکومت میں وزارتیں اور شیئر لے کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ اس طرح ملک کی لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی سطح پر حکومت کر رہی ہیں اور عوام کو سب نے بیوقوف بنا رکھا ہے جبکہ سادہ لوح عوام ایک دوسرے کو متوالا، جیالا اور ٹائیگر ثابت کرنے کے لیے دست و گریباں ہیں‘‘۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ملک کے سینئر ترین پارلیمنٹیرینز میں سے ایک‘ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں سیاست دان صرف اپنے مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ اگرچہ وہ خود بھی ایک کُل وقتی سیاستدان ہیں لیکن ان کا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پاکستانی سرمایہ کار اور سیاست دان صرف اپنا مفاد سوچتے ہیں۔ اگر ہر شہری اپنے اردگرد موجود سیاست دانوں کے رویے، معاملات اور کردار پر غور کرے تو یقینا جو نتیجہ اخذ کیا جائے گا‘ اس کا لب لباب وہی ہو گا جو شیخ صاحب کا موقف ہے۔
قومی مفاد اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بڑے ریاستی اداروں کی بات نہیں کریں گے لیکن اگر دیگر قومی اداروں اور شعبہ ہائے جات پر نظر ڈالی جائے تو بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ افسر شاہی سمیت ہر کوئی اقتدار اور اختیارات کے مزے لوٹ رہا ہے۔ پُرسکون رہائش گاہیں، لگژری گاڑیاں، بھاری تنخواہیں، پُرکشش الائونسز، مفت بجلی، اندرون و بیرون ملک مفت علاج، بہترین سہولتوں کے ساتھ دیگر تمام مراعات انجوائے کی جا رہی ہیں۔ کسی بھی سطح پر‘ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پولیس‘ افسر شاہی اور انتظامی افسران کی وفاداریاں بھی اس طرح تبدیل ہو جاتی ہیں جیسے ایک بٹن کے ذریعے کوئی برقی آلہ آن یا آف ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب کی مثال ہی لے لیں، چند ماہ پہلے تک سردار عثمان بزدار کا سکہ اس طرح چلتا تھا کہ کسی افسر کی مجال نہ تھی کہ بزدار صاحب تو کجا‘ ان کے کسی چہیتے کا بھی حکم رد کر سکتا۔ پھر بزدار صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنے‘ اب سردار عثمان بزدار کے خلاف مختلف قسم کی انکوائریاں شروع کرنے کی باتیں ہونے لگیں اور تمام صوبائی مشینری حمزہ شہباز کے حکم کی منتظر رہنے لگی۔ ابھی کچھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل دوبارہ شروع ہو گیا اور صوبے کی اس اہم ترین مسند پر چودھری پرویز الٰہی براجمان ہو گئے اور حمزہ شہباز بھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے، لیکن اس بار بھی وہی منظر دیکھا کہ پہلے عثمان بزدار اور پھر حمزہ شہباز کے گیت گانے والی افسر شاہی اب پرویز الٰہی کے حکم کی بجا آوری کے لیے مستعد کھڑی تھی۔ یعنی پولیس اور افسر شاہی کے لیے سارے حکمران قابلِ قبول ہوتے ہیں، اِکا دُکا افسر ہی ایسا ہوتا ہے جو حکومت کی تبدیلی پر اپنے تبادلے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ کہنے کو تو افسر شاہی ریاست کے ماتحت ہوتی ہے مگر شاذ ہی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ حکمرانوں کے غیر قانونی اور سیاسی احکامات کی تکمیل سے کوئی انکار کر سکے۔ اپنے ایک بیورو کریٹ دوست سے میں نے ایک بار سوال کیا کہ جب آپ لوگ کسی حکمران کے ساتھ ڈیوٹی کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ لوگوں پر سیاسی چھاپ نہیں لگ جاتی؟ انہوں نے بڑا بے باک اور دو ٹوک جواب دیا کہ کوئی بھی افسر کسی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے اور میرا تجربہ و مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ افسران کسی بھی محکمے یا شعبے سے ہوں‘ ہر حکومت کے ساتھ یکساں چلتے ہیں، لیکن عوام خواہ مخواہ سیاستدانوں کی خاطر ہر وقت آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔
سیاستدان حزبِ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں‘ وکٹ کے دونوں اطراف وہ سیاسی کھیل کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، اور عوام بیوقوف تماشائیوں کی طرح خواہ مخواہ پریشان اور باہم دست و گریبان ہو رہے ہوتے ہیں۔ تقریباً دو برس قبل مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی سے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے: اعوان صاحب! ہم نے اپنی پارٹی کے ہارنے پر شکر ادا کیا ہے۔ میں ان کی بات پر حیران ہوا تو کہنے لگے کہ الیکشن ہارنے کے بعد اپنی پوری توجہ کاروبار پر مرکوز کر دی ہے اور اللہ پاک کا شکر ہے کہ کاروبار دوبارہ چمک اٹھا ہے۔ میں کافی عرصے تک ان کے اس بیانیے کے بارے میں سوچتا رہا کہ کیا واقعی وہ عوام کے ساتھ اتنے مخلص ہیں کہ اپنی جماعت کے برسر اقتدار آنے پر چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے کاروبار پر توجہ تک نہیں دے پاتے۔ دو برس تک میں ان کے بیان کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا لیکن پھر جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی اور اس کی کامیابی کی امیدیں روشن ہوئیں تو ان سابق رکن اسمبلی کے بیانات میڈیا میں نمایاں ہونے لگے اور جب شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو پھر عوامی خدمت کی تڑپ ان صاحب کے دل میں اس طرح دوبارہ جاگ گئی کہ اب انہیں نہ تو کاروبار کی فکر ہے اور نہ گھر کی کوئی ٹینشن ہے، اب یا تو وہ پی ایم ہائوس کے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں یا پھر کسی وزارت کے۔ پارٹی کی کسی میٹنگ کو بھی وہ مِس نہیں کرتے تاکہ اگلے الیکشن میں اپنے لیے پارٹی ٹکٹ کی راہ ہموار کر سکیں۔
اب سیاستدانوں کی آپس میں دوستی و (نام نہاد) دشمنی کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ماضی کے حلیف آج کے حریف یا ماضی کے حریف آپس میں حلیف ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے سب سے پہلے میرے ذہن میں سابق وفاقی وزرا‘ جناب شیخ رشید احمد اور محمد اعجاز الحق کے نام آتے ہیں کیونکہ ان دونوں رہنمائوں کی سیاست کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ دونوں رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صفِ اول کی قیادت میں شمار ہوتے تھے۔ دونوں صاحبان نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن تھے اور مسلم لیگی قائد کو پاکستان کا سب سے مقبول، کامیاب اور ایماندار لیڈر مانتے تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں ان دونوں کی میاں نواز شریف سے راہیں جدا ہو گئیں اور یہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور پھر دونوں سابق وفاقی وزرا نے اپنی اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی۔ شیخ رشید احمد نے اپنی پارٹی کا نام عوامی مسلم لیگ رکھا جبکہ اعجاز الحق نے پاکستان مسلم لیگ (ض) کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔ آج یہ دونوں صاحبان چیئرمین پی ٹی آئی‘ سابق وزیراعظم عمران خان کے اتحادی ہیں اور میاں نواز شریف کے سیاسی حریف بن چکے ہیں۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ نواز شریف کے قریبی رفیق چودھری شجاعت حسین تقریباً دو دہائیوں کی سیاسی رقابت کے بعد اب دوبارہ ان کے اتحادی بن چکے ہیں جبکہ پانچ دہائیوں سے انتہائی مضبوط تعلقات کے حامل سیاسی بھائیوں‘ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کے مابین سیاسی دراڑ پڑ چکی ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ یہ دراڑ عارضی ہے اور وہ جلد ہی ایک دوسرے کو دوبارہ گلے لگا لیں گے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ سیاست دان وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ترجیحات اور مفادات کے پیش نظر اپنے حلیف اور حریف بدلتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف عوام ہیں جو ان سیاست دانوں کی خاطر زندگی بھر کی مخالفتیں اور دشمنیاں مول لے لیتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جن سیاست دانوں کی خاطر وہ آپس میں ایک دوسرے کو طعنے مارتے ہیں‘ وہ تو اپنے مفاد کی خاطر فوری یوٹرن لے لیتے ہیں۔ کاش کوئی عوام کو یہ سمجھا سکے کہ اپنے پسندیدہ سیاستدانوں سے ہی کچھ سبق سیکھ لیں اور آپس میں لڑنے اور الجھنے کے بجائے متحد ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں