قصور ہمارا اپنا ہے!

وطنِ عزیز پاکستان کی آزادی کے پچھتر برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم ایک منظم قوم نہیں بن سکے۔ بحیثیت قوم ہم آج تک نہ تو اپنے حقوق جان سکے ہیں اور نہ ہی ہم اپنے فرائض کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ملک میں ابھی تک نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ ہی تشکیل نہیں دیا جا سکا، نہ ہی ابھی تک ہم یہ فیصلہ کر سکے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم مادری زبان میں دینی ہے یا قومی زبان میں یا پھر انگریزی زبان میں؟ ہم نے نصابِ تعلیم اردو میں پڑھانا ہے یا انگریزی میں؟ ہمارے جیسے اردو میڈیم والوں کی اکثریت ساری زندگی غلطی کے احتمال اور شرمندگی کے خوف سے انگریزی نہیں بول سکتی جبکہ انگلش میڈیم سکولوں سے فارغ التحصیل بیشتر طلبہ و طالبات کی اردو کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انہیں اردو میں گنتی تک نہیں آتی۔ سیاسی جماعتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے دعوے اور وعدے تو کرتی رہی ہیں لیکن برسر اقتدار آ کر وہ سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ امیروں کے بچے میرٹ پر نہ بھی آئیں تو سیلف فنانس سکیم کے تحت یا نجی تعلیمی اداروں سے میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس، انفارمیشن ٹیکنالوجی یا کسی بھی من پسند مضمون میں اعلیٰ ڈگری لے لیتے ہیں جبکہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریبوں کے بچوں کو میرٹ پر آنے کے باوجود اچھے اداروں میں انٹری ٹیسٹ کے نام پر ہی باہر کر دیا جاتا ہے‘ یا اگر کہیں داخلہ مل بھی جائے تو ان کے لیے تعلیمی اخراجات ہی پورے کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ سرکاری جامعات کی فیسیں بھی عام شہری کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ فیس کی بچت کے لیے اگر کوئی آدمی اپنے بیٹے یا بیٹی کو کسی سرکاری سکول یاکالج میں داخل کراتا ہے تو اس کا صرف اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ روزانہ صبح پڑھائی کے بہانے گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی بچوں کو روزانہ یونیفارم میں دیکھ کر ایک عرصہ تک مطمئن رہتے ہیں کہ ان کی نسلِ نو تعلیم حاصل کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زائد سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی بدتر ہو چکی ہے۔ اکثر اداروں میں اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے بے نیاز محض ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے سال بھر یونین بازی اور سیاسی سرگرمیوں میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں جبکہ سرکاری کالجز کے طلبہ اپنی مطلوبہ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اپنے مضامین سے متعلق کچھ نہیں جان پاتے۔
ملک میں صرف طبقاتی نظام تعلیم ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں دہرا معیار، تفریق اور تخصیص پائے جاتے ہیں۔ غریب کے بچے تو پبلک پارکوں میں نصب اچھے جھولوں پر بھی نہیں بیٹھ سکتے اور کسی قدیمی پارک کے ٹوٹے ہوئے بوسیدہ جھولوں پر کھیلنا ہی ان کی قسمت میں لکھا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب تو قبرستانوں میں بھی عوام اور خواص کی تفریق ہونے لگی ہے۔ عام قبرستانوں میں خودرو جھاڑیوں میں اپنے پیاروں کی قبر تلاش کرنا آسان کام نہیں رہا جبکہ اکثر اوقات جانور بھی قبروں کی بے حرمتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس پوش علاقوں کے قبرستانوں میں قبر کے لیے بھی گلی اور پلاٹ نمبر الاٹ کیا جاتا ہے اور وہاں صفائی و دیکھ بھال کیلئے ہر وقت گورکن موجود رہتے ہیں۔
صحت کی سہولتوں کی تفصیل میں جائیں تو ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے متعدد ہسپتال صرف اس لیے کئی برس تک کھنڈر عمارت بنے رہتے ہیں کہ حاکم وقت کو یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر یہ ہسپتال فعال ہو گئے تو ان کا کریڈٹ کہیں اس سے پچھلی حکومت کو نہ مل جائے۔ دور کی بات چھوڑیں‘ میرے اپنے شہر راولپنڈی میں یورالوجی ہسپتال مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں بنا لیکن مکمل ہونے کے باوجود صرف اس لیے چار سال تک فعال نہ ہو سکا کہ پی ٹی آئی حکومت سمجھتی تھی کہ اس کاکریڈٹ (ن) لیگ کو جائے گا۔ اسی طرح شیخ رشید احمد کی کوششوں سے 2006ء میں شروع ہونے والا ماں بچہ ہسپتال کا تعمیراتی کام 2008ء سے 2018ء تک‘ دس سالوں کے لیے محض اس وجہ سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں نے روکے رکھا کہ اس کا کریڈٹ ان کے سیاسی حریف کو ملے گا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور شیخ صاحب دوبارہ وزیر بنے تو انہوں نے اس ہسپتال پر تیزی سے کام شروع کرایا۔ یہ ہسپتال ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہی تھا کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے باعث پھر التوا کا شکار ہو گیا، تاہم اب دوبارہ پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کے باعث یہ امید اجاگر ہوئی ہے کہ سابق وزیر داخلہ اس ہسپتال کو اب مکمل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح راولپنڈی میں لئی ایکسپریس وے اور رنگ روڈ جیسے انتہائی ضروری میگا پروجیکٹس بھی تاحال سیاست کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ ساری مثالیں سامنے ہونے کے باوجود عوام ان سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
سیاست دانوں کے انتخابی نعرے اور وعدے تو ہوتے ہی الیکشن جیتنے اور حصولِ اقتدار کے لیے ہیں۔ میں پہلے بھی اپنے کئی کالموں میں مثالوں کے ساتھ یہ واضح کر چکا ہوں کہ سیاست دان تو ہمیشہ اپنا مفاد مقدم رکھتا ہے، وہ قوم کے اجتماعی مفاد کے بجائے بیشتر معاملات میں ذاتی و سیاسی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے وہ سچ و جھوٹ، اچھائی و برائی، آئین و قانون، صحیح و غلط اور شہرت و بدنامی سمیت کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔ سیاستدان جب چاہیں‘ اپنی بات سے مکر جاتے ہیں، جب چاہیں اقتدار کے لیے زندگی بھر کے محسنوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور اپنے بدترین سیاسی مخالفین سے بھی اتحاد کر لیتے ہیں لیکن عوام ہیں کہ کبھی اپنے حقوق کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچتے ہی نہیں۔ وہ کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کہ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں کس تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے اور عام سرکاری ملازم کی تنخواہ کتنے فیصد بڑھی ہے؟ ارکانِ اسمبلی و سینیٹ کو سالانہ کتنی مراعات ملتی ہیں اور غریب کے لیے چلنے والی میٹرو بس کی سبسڈی بھی ختم کر دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو بیرونِ ملک سمیت ملک بھر میں مفت علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور غریب مریضوں کو ایمرجنسی میں بھی ادویات اور طبی آلات مکمل فری نہیں ملتے۔ اگر ایک حکومت عوام کو کوئی ریلیف دیتی ہے تو دوسری حکومت بارودی سرنگ کا نام دے کر اسے ملک و قوم سے دشمنی بنا کر پیش کرتی ہے۔ ایک حکومت کی پالیسی کو دوسری حکومت آتے ہی ختم کر دیتی ہے۔ جب کوئی وی آئی پی کوئی سفر وغیرہ کرتا ہے تو ایمبولینس اس کے سکواڈ کے ساتھ ہوتی ہے، اس کے برعکس غریب عوام کے لیے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی اور او پی ڈی میں ڈاکٹرز اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ محض سیاسی بنیادوں پر آئے روز ہڑتال کیے ہوتے ہیں۔
عوام اگر نام نہاد عوامی نمائندوں کی چال بازیاں سمجھیں اور ان پر غور کریں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور لگ پتا جائے گا کہ جن سیاسی لیڈروں کی خاطر انہوں نے اپنے خاندان، گلی، محلے، علاقے اور شہر میں دشمنیاں تک مول لے رکھی ہیں، جن کی خاطر وہ ایک دوسرے کو نہ جانے کیا کیا نام دیتے رہتے ہیں‘ ان سب کا مفاد اور مقصد تو ایک ہی ہے، انہیں تو کسی بھی قیمت پر صرف اقتدار اور اختیار چاہیے ہوتا ہے، اس کے لیے کسی بھی وقت وہ اپنے ووٹروں، پارٹی، منشور حتیٰ کہ قومی مفادات کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ جنہیں وہ کبھی برا بھلا کہتے تھے، انہیں گلے بھی لگا سکتے ہیں۔ نجانے عوام اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ آج کل ہم ملک کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کا جشن منا رہے ہیں یعنی ہمیں آزاد ہوئے پچھتر برس بیت چکے ہیں، اب تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ابھی تک ایک منظم قوم کیوں نہیں بن سکے؟ اگر سوچیں گے تو یقینا کوئی حل بھی تلاش کریں گے‘ کوئی اسباب بھی ڈھونڈیں گے اور میری دانست میں اس سوال کا یہی جواب ملے گا کہ ہماری اس حالتِ زار میں قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم ابھی تک ایک منظم قوم نہیں بن سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں