ہماری قومی سیاست شاید آج اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر گزشتہ دہائی تک‘ ہماری اسمبلیوں میں اَن پڑھ سیاست دان بھی آتے رہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ رہنما بھی، لیکن سخت ترین سیاسی حریف بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تنقید کرتے وقت حد عبور نہیں کرتے تھے، اخلاق اور تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑا جاتا تھا اور اپنی گفتگو میں سیاسی اقدار اور روایات کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی ترقی کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے مگر اس 'شارٹ کٹ‘ ترقی نے نوجوان نسل کا اخلاق تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اقدار کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ آج ہماری سیاسی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ معمولی سی مخالفت پر سیاسی حریف کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ جن باتوں پر پہلے محض گلہ شکوہ کرکے معاملہ رفع دفع ہو جاتا تھا، اب بات ان معاملات میں سنگین دفعات کے تحت مقدمات بنانے تک پہنچ چکی ہے۔ آج سیاسی مخالفین پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف وفاقی حکومت اسلام آباد میں اپنے مخالفین کو شکنجے میں جکڑنے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی عوامی مسائل کے بجائے سیاسی حریفوں پر مقدمات بنانے میں جتی ہوئی ہیں۔ اس وقت جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقے سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ ہزاروں دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو گئی ہیں، لاکھوں مویشی اور جانور بھی پانی میں بہہ گئے ہیں، اربوں روپے کی املاک سیلاب میں ڈوب کر تباہ ہو گئی ہیں، لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، بلوچستان سمیت متعدد علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ کٹ چکا ہے اور ابھی یہ تباہ کاریاں جاری ہیں۔ مزید کروڑوں افراد کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں لیکن اس حال میں بھی سیاست دان اپنے حریفوں پر الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں کوشاں ہیں۔
بحیثیت کارکن صحافی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان، میاں نوازشریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، چودھری پرویز الٰہی، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیخ رشید احمد، سراج الحق اور خورشید شاہ سمیت تمام قومی سیاستدان محب وطن ہیں، ان کی وطن سے محبت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کوئی سیاسی رہنما کسی ذاتی مفاد، حصولِ اقتدار یا سیاسی حریف کو نقصان پہنچانے کے لیے آئین و قانون شکنی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے جس کی سزا آئین و قانون میں درج ہے لیکن کسی کو غدار کہنا اور وطن دشمن قرار دینا کسی بھی صورت درست روش نہیں ہے۔ غدار اور ملک و قوم کے حقیقی دشمن تو وہ ہیں جو اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بن کر ہمارے اجتماعی قومی مفادات کی راہ میں مستقل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، جو پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہونے دے رہے، جن کی ہٹ دھرمی وجہ سے ہزاروں انسانی جانیں اور کھربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ہر دوسرے سال سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف بھارت بڑے بڑے ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور جب وہ سیلابی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو ذخیرہ شدہ پانی پاکستان میں چھوڑ کر آبی جارحیت سے وطن عزیز میں بدترین تباہی پھیلاتا ہے جبکہ دوسری طرف کچھ ہمارے اپنے نام نہاد رہنما دشمنوں کے آلہ کار بن کر ڈیموں کی مخالفت میں دن رات ایک کیے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار یہ متنبہ کر رہے ہیں کہ آئندہ جنگوں کا سب سے بڑا سبب پانی ہو گا دنیا شدید آبی قحط کی طرف بڑھ رہی ہے اور جو ملک و قوم بھی آبی ذخائر کی دولت سے مالا مال ہوں گے، وہی ایسے حالات میں اپنی بقا کو یقینی بنا سکیں گے مگر اس کے باوجود ان نام نہاد رہنمائوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے خلاف کسی ایٹمی یا بری، بحری و فضائی جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتامگر یہ آبی جارحیت ہی ہے جو ملک کی بقا اور سلامتی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے اور جو ہمیں نہ صرف ہر سال مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی کمزور تر کر رہی ہے۔
کچھ بات کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی ہو جائے کہ یہ منصوبہ دراصل ہے کیا اور یہ ڈیم کہاں بننا ہے۔ اس کے بعد بات کریں گے کہ اس اہم قومی منصوبے کے مخالفین کی منطق کیا ہے؟ کالا باغ ڈیم حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے حوالے سے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے کے لیے منتخب کیا گیا کالا باغ‘ ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ میانوالی صوبہ پنجاب کا شمال مغربی ضلع ہے۔ یاد رہے کہ میانوالی پہلے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا تھا۔کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل ہی سے متنازع بنا دیا گیا تھا۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ ڈیم تعمیر کر کے رہیں گے، لیکن پھر وہ بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئے یا یوں کہیے کہ وہ بھی چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے لگے اور قومی ترقی کا ضامن یہ منصوبہ تاحال التوا کا شکار چلا آ رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کے پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس منصوبے کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے جو دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے۔ مرکزی حکومت کی تشکیل بھی عام طور پر صوبہ پنجاب کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں نے اس منصوبے کی تعمیر کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں بھی منظور کر رکھی ہیں اور اس کے حوالے سے سخت تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور اس پر کوئی بھی تعمیری کام اب تک ممکن نہ ہو سکا۔
پنجاب سمیت ملک کی بڑھتی آبادی، صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے، کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بلاشبہ ان ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا جا گرنا دراصل پانی کے ذخیرے کا ضائع ہو جانا ہے، یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہو چکی ہیں۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ کے علاوہ بھی دیگر دو بڑے منصوبے بھاشا اور سکردو ڈیم بھی جلد تعمیر کیے جانے چاہئیں۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاولنگر کے علاقے کالاباغ ڈیم کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔ صوبہ سندھ‘ جس نے کالا باغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت کی‘ گاہے پنجاب پر سندھ کا پانی چوری کرنے کے الزامات عائد کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کے بیانات کی اندرونِ سندھ میں کافی حمایت دیکھنے میں آتی ہے لیکن آج تک اس چوری کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ ڈیم پر دو بڑے تحفظات ہیں، گو کالا باغ ڈیم کا آبی ذخیرہ صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہو گا لیکن بجلی پیدا کرنے والی ٹربائنیں اور دیگر کچھ تعمیرات صوبہ پنجاب کی حدود میں واقع ہوں گی۔ اس اعتبار سے پنجاب اس سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار متصور ہو گا، اسی اعتراض کو رفع کرنے کیلئے صوبہ پنجاب نے اس کی رائلٹی سے دستبردار ہونے کی آفر بھی کی تھی۔ کے پی کا دوسرا اعتراض ہے کہ ضلع نوشہرہ پہلے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سبب زیر آب آ جائے گا اور بعد میں ریت کے جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر ہو جائے گا اور اس سے ہمہ وقت سیلابوں اور شہری علاقوں کے زیرِ آب آنے کا خطرہ درپیش ہو گا۔ حالانکہ یہ مسائل بڑے پیمانے پر نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر حل کیے جا سکتے ہیں۔ (جاری)