ہمارے ہاں کی جمہوریت بھی عجیب ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت حزبِ اختلاف میں ہوتی ہے تو اس کی قیادت اداروں اور انتظامی افسران سے سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کامطالبہ کرتی ہے اورجب وہی جماعت اقتدار میں آ جاتی ہے تو اپوزیشن کے ایسے بیانات کو جمہوریت پر حملہ اور آئین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ ماضی میں ہم نے آمرانہ حکومتیں بھی دیکھی ہیں جب طالع آزمائوں نے نظریۂ ضرورت کو بنیاد بنا کر اداروں کو سیاست میں ملوث کیا اور سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومتیں بنائیں مگر یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اداروں کی جانب سے بار بار واضح کیا گیا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، سیاست دان اپنے فیصلے خود کریں اور اداروں کو سیاسی معاملات سے دور رکھیں۔ اداروں کی قیادت نے عملی طور پر بھی خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھا ہے لیکن شاید ہماری سیاسی قیادت اس بات کی اب عادی ہو چکی ہے کہ وہ تو اقتدار کے مزے لوٹے جبکہ تمام انتظامی ذمہ داریاں اور فیصلے ادارے کریں۔ ملک میں انتخابات ہوں یا محرم الحرام کا جلوس‘ زلزلے کی قدرتی آفت ہو یا سیلابی صورتِ حال ہو‘ سکیورٹی سے لے کر امدادی کارروائیوں تک‘ سماجی خدمات کے حوالے سے ہمارے بہادر فوجی ہی سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ حالیہ تباہ کن سیلاب میں بھی افواج پاکستان نے لوگوں کو پانی سے نکالنے، انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے، خیمہ بستیوں کے قیام اور متاثرین تک راشن پہنچانے سمیت ہر مرحلے پر ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے اور لوگوں کی جانیں بچاتے بچاتے خود بھی کئی عظیم قربانیاں دی ہیں۔
اس وقت تمام ادارے اپنی آئینی و انتظامی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں مگر سیاست دان اپنے اپنے مقاصد کے تحت نجانے کیوں اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے مقاصد کے لیے اداروں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہر پارٹی اور اس کے نمائندے چاہتے ہیں کہ تمام بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین ان کے کارکن بن کر کام کریں۔ ان کے مفادات کا تحفظ کریں، ان کے اشاروں پر چلیں۔ حکمران جماعت اور اس کے کارکنوں کو بھرپور سرکاری پروٹوکول دیا جائے۔ سرکاری خزانے کے منہ ان کی انگلی کے اشارے سے کُھلیں اور ان کے تمام مخالفین (اپوزیشن) سے پاکستانی شہری ہونے کا استحقاق بھی چھین لیا جائے اور انہیں طویل عرصے تک جیلوں میں ڈال دیا جائے یا پیچیدہ و سنگین مقدمات میں الجھا دیا جائے۔ میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ کہتا ہے کہ کوئی اِکا دُکا کیس چھوڑ کر‘ ہمیشہ انتظامیہ اور پولیس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا آلہ کار بننے کے بجائے حکومت کے ساتھ چلا جائے اور جو بھی پارٹی برسر اقتدار ہو‘ اس کے ساتھ تعاون کیا جائے مگر شاید اب ہماری سیاسی قیادت افسر شاہی اور پولیس کے معاملے میں بھی اس قدر کنٹرول چاہتی ہے کہ ساری مشینری محض حکمران جماعت کی سہولت کار بن کر رہ جائے اور ہر جائز و ناجائز کام میں اس کا ساتھ دے، اس مقصد کے لیے آئین و قانون اور قومی مفادات کے بجائے اس کی خواہشات کو اولیت دی جائے۔
آج سے چند برس قبل میں نے ایک اعلیٰ سرکاری افسر‘ جو اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف (موجودہ وزیراعظم) کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے‘ سے سوال کیا کہ حکمران جماعت کی زیادہ قربت سے آپ پر تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چھاپ لگ جائے گی؟ اس پر انہوں نے بڑا دوٹوک جواب دیا کہ سرکاری افسر کسی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ بعد میں ان کی اس بات کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ وہی افسر صاحب پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے دور میں بھی انتہائی اہم عہدوں پر تعینات رہے اور ان کے کام یا کارکردگی میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ جونہی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو انتظامیہ اور پولیس کی 'وفاداریاں‘ بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ افسران کی وفاداری محض آئین و قانون کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن ہماری ہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ انتظامیہ چونکہ حکومت کے ماتحت ہوتی ہے لہٰذا اس کی وفاداریاں حکومت‘ دوسرے معنوں میں برسر اقتدار سیاسی جماعت کے ساتھ ہوتی ہے۔مگر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان شاید اس سے بھی کچھ زیادہ کی امیدیں رکھتے ہیں۔ برسر اقتدار جماعتوں کی خواہش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ افسر شاہی صرف ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اگر سیاست دانوں کا بس چلے تو وہ اپنے دور کی تمام تقرریاں، تعیناتیاں اور تبادلے سیاسی بنیادوں ہی پرکریں اور صرف انہی افسران کو اہم اسامیوں پر تعینات کریں جو حکمران جماعت سے تاحیات وفاداری کا حلف اٹھائیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ افسر شاہی میں سیاسی مداخلت بڑھ رہی ہے بلکہ اب تو خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ شاید مستقبل میں مقابلے کے امتحان کے بعد افسران کو آزادانہ حیثیت میں الیکشن جیتنے والے افراد کی طرح یہ آپشن دیا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو جائیں اور پھر ہر پارٹی اپنے سے وابستہ افسران کو ہی پوسٹنگ دے گی۔ اس وقت سرکاری افسران ایک حد تک ہی حاکم وقت یا برسر اقتدار جماعت کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ بھی ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ یہ حکومت تو کچھ عرصے کی مہمان ہے اور بعد میں انہیں خواہ مخواہ نیب سمیت مختلف اداروں کی انکوائریاں بھگتنا پڑیں گی اور سکون کی نوکری کے بجائے جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ سکتی ہے لہٰذا وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنا تبادلہ کسی ایسی جگہ کروا لیں جہاں انہیں کوئی غیر قانونی کام نہ کرنا پڑے۔ گزشتہ روز بھی ایک ایسی ہی خبر دیکھنے کو ملی کہ ''پنجاب کی بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت نہ رک سکی، چیف سیکرٹری 14 روزہ رخصت پر چلے گئے۔ چیف سیکرٹری کی چھٹی منظور کرنے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق چیف سیکرٹری نے گزشتہ ماہ دو بار وفاق کو خدمات لوٹانے کی درخواست کی تھی، انہوں نے کام جاری رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مراسلہ بھی بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تبادلے کارکردگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں نہ کہ سیاسی تبدیلی کی بنیاد پر، ٹرانسفر پوسٹنگ احکامات پر دستخط کرنے والا ربڑ سٹیمپ نہیں بن سکتا۔ انہوں نے افسران کو بتایا تھا کہ سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہے، کسی افسر کی مدت پوری نہیں ہونے دی جاتی۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کے اس سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بن سکتا۔ واضح رہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت اب تک چیف سیکرٹری کے لیے نیا نام فائنل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔
ماضی میں کچھ سیاسی رہنما کھلے عام اس طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں کہ جو سرکاری افسر ہمارے کارکنوں کو ترجیح نہیں دے گا‘ اسے ضلع بدر کر دیا جائے گا۔ افسران کی لسٹیں بنانے اور کچھ ناموں کو ''ریڈ سرکل‘‘ کرنے کی باتیں بھی گردش کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنرز سمیت اہم انتظامی عہدوں پر سال میں دو‘ دو یا تین‘ تین بار تبادلہ ہوتا رہا۔ اس سے بیورو کریسی میں عدم اعتماد کی فضا قائم ہوتی اوراس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ مبینہ طور پر اہم تعیناتیوں کے ''خریدے جانے‘‘ کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جو مذکورہ معاملات سے بھی زیادہ تشویشناک امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران جماعتیں کارکردگی کی بنیاد پر تو تقرریاں و تبادلے ضرور کریں، جزا و سزا کا عمل بھی ہونا چاہئے، لیکن اختیارات کے استعمال میں میرٹ کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ انتظامی معاملات میں حد سے زیادہ سیاسی مداخلت سے گریز کیا جانا چاہیے اور کسی بھی صورت میں سیاسی بنیادوں پر تقرر و تبادلے نہیں ہونے چاہئیں۔