بچوں کی یونیورسٹی میں توقع سے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ زیادہ لگ چکا تھا اور ابھی تک وہ کام نہیں ہوا تھا جس کے لیے وہاں گیا تھا۔ بینک کا چکر لگانے کے بجائے وقت بچانے کے لیے یونیورسٹی آفس ہی سے موبائل فون پر آن لائن ٹرانزیکشن کی کوشش کی تو وہ بھی بے سود رہی کیونکہ ایک تو انٹرنیٹ کی رفتار روٹین سے کچھ زیادہ ہی کم تھی‘ دوسری طرف جب بھی اوکے کا آپشن آتا تو موبائل پر ایک قریبی دوست کی کال 'ٹرن ٹرن‘ کرنے لگتی۔ اپنی ٹرانزیکشن مکمل کرنے کے لیے دوست کی کال کاٹتا اور دوبارہ وہ سارا عمل دہراتا لیکن عین منزل پر پہنچ کر پھر وہی کال آ جاتی، یوں جتنا وقت بچانے کی کوشش کر رہا تھا‘ اتنا ہی ضائع ہوتا جا رہا تھا۔ آخرکار تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنا کام ادھورا چھوڑ کر باہر نکلا اور اپنے دوست کے نمبر پرکال ملائی۔ سپورٹس سے متعلق ایک غیر ملکی شخصیت کا انٹرویو کرنا تھا مگر میں اپنے جھمیلوں میں ہی مصروف تھا۔ فون پر جو بات ہوئی‘ وہ داستان یہاں بیان نہیں کر سکتا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ پھر ایک صحافی دوست کی کال آئی تو اس سے درخواست کی کہ آپ غیر ملکی مہمان کے انٹرویو کو پندرہ بیس منٹ مزید طول دینا تاکہ میں بھی پہنچ سکوں۔ اپنی کھٹارا گاڑی کو دوڑاتا ہوا گرائونڈ میں داخل ہوا تو وہاں دیکھاکہ کھیل کے میدان میں بھی ٹیم کی کارکردگی یا تیاریوں کے بجائے کرنسی کے اتار چڑھائو اور مہنگائی بارے بحث جاری تھی۔ اس موقع پر پی ڈی ایم کے حامی بھی لاجواب تھے۔ یہ پہلے بڑے دعوے کرتے تھے کہ جونہی عمران خان کی حکومت جائے گی تو مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا اور عوام کو فوری ریلیف ملے گا لیکن جب یہ انہونی ہو گئی تو اس کے بعد تمام دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اورساری تدبیریں الٹی ہو گئیں‘ مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہونے کے بجائے مزید بے قابو ہو گیا‘ خصوصاً پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اتنا بے رحمانہ اضافہ ہوا کہ عام آدمی تو صرف یوٹیلیٹی بلوں کے چکر میں ہی پھنس کر رہ گیا۔ اب بھی وہ حکومت کی پالیسیوں کے گن گا رہے تھے کہ دیکھیں اسحاق ڈار کی آمد سے ڈالر کی قیمت میں یکدم دس روپے کی کمی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ڈالر 182 روپے سے 240 روپے تک کیسے پہنچا؟کپتان کے حامی کہتے تو سچ ہیں کہ اسحاق ڈار کی پاکستان آمد اور وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ڈالر کی قدر کم ضرور ہوئی لیکن اس کے عوام تک کیا ثمرات پہنچے ہیں‘ اصل سوال تو یہ ہے۔
گزشتہ روز کاروبار کے آغاز پر ڈالر کی قدر میں مزید کمی دیکھنے میں آئی اور امریکی کرنسی کی قدر میں 97 پیسے کمی ہوئی جس کے بعد ڈالر 217 روپے پر آ گیا۔ گزشتہ ہفتے کاروباری ہفتے کے اختتام پر ڈالر 222 روپے پر بند ہوا تھا۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے لانے کے بیان اور بینکوں کے خلاف انکوائری کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں ایک مرتبہ پھر فی تولہ سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے دوسرے روزگولڈ پرائس میں 9 ڈالر فی اونس کی کمی ریکارڈ کی گئی اور نئی قیمت 1668 ڈالر ہو گئی۔ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونے کے باوجود ملکی صرافہ مارکیٹوں لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد، سکھر، ملتان، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، حیدر آباد اور گوجرانوالہ سمیت دیگر جگہوں پر فی تولہ سونے کی قیمت میں 700 روپے کا بڑا اضافہ دیکھا گیا اور نئی قیمت ایک لاکھ 44 ہزار 850 روپے ہو گئی۔ ادھر دس گرام سونے کی قیمت بھی 600 روپے اضافے کے بعد 1 لاکھ 24 ہزار 143 روپے ہو گئی ہے۔ صرف سونا ہی نہیں بلکہ اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں بھی کمی کے بجائے ہوش ربا اضافہ جاری ہے۔ آلو‘ پیاز اور ٹماٹر سمیت ہر چیزمہنگی ہو چکی ہے۔ ٹماٹر 280 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں، ڈبے والا دودھ کا ڈیڑھ لیٹر پیک‘ جو چند ہفتے قبل 250 روپے سے 275 روپے کا ہوا تھا‘ نئے وزیر خزانہ صاحب کی آمد کے بعد سے 310 روپے کا ہو چکا ہے۔ تنور والوں نے 100 گرام روٹی 20 روپے، نان 25 روپے اور کلچہ 30 روپے کا کر دیا ہے۔ یہی حال دیگر چیزوں کا ہے۔ روز مرہ استعمال کی چیزوں کے نرخ اس قدر تیزی سے پہلے کبھی نہیں بڑھے تھے۔ کیک رس خریدتے ہوئے غلطی سے بیکری والے کو کہہ دیا کہ بھائی ڈالر تو اب ہر روز سستا ہو رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ نرخ بڑھاتے جا رہے ہیں تو اسے یہ بات بڑی ناگوار گزری۔ تِنک کر کہنے لگاکہ کیک رس، بن، ڈبل روٹی اور بسکٹ وغیرہ آٹے اور میدے سے بنتے ہیں، ہم ڈالر کی قیمت کوکیا کریں جب آٹا اور میدہ ہی مسلسل مہنگے ہوتے جا رہے ہوں۔ یقینا ان مسائل کے اسباب میں سیلاب کی تباہ کاریاں بھی شامل ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت تو گندم کا پچھلا ریٹ یعنی 2200 روپے من چل رہا ہے۔ نئی فصل کے لیے سندھ حکومت نے 4 ہزار اور پنجاب حکومت نے 3 ہزار روپے کا ریٹ نکالا ہے‘ تو پھر ابھی سے آٹے اور گندم کی قیمت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ بہرحال جو بھی ہے‘ مہنگائی کوکنٹرول کرنا، اشیائے ضروریہ کی مناسب نرخوں پر دستیابی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی روک تھام حکومت کا کام ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع مہیا کرنا اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔
کبھی کبھی مہنگائی خصوصاً یوٹیلیٹی بلوں کے حوالے سے حکومتی ایوانوں میں بھی گونج سنائی دیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کامثبت نتیجہ بہت کم نکلتا ہے؛ تاہم عوام اپنے حقوق کی بات سن کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں وفاقی وزیر توانائی نے بتایا کہ جون کے استعمال شدہ یونٹس پر فیول ایڈجسٹمنٹ سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جماعت اسلامی کے رکن نے اگست کے مہینے میں بجلی کے زائد بلوں پر توجہ دلائو نوٹس پیش کیا تو اس پر وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ 100 یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارج نہیں لگایا گیا، جون میں شدید گرمی کے باعث بجلی کی طلب بڑھی تو اُس ماہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بل زیادہ آئے۔ ہم نے جون میں ضرورت پوری کرنے کے لیے مہنگے ذرائع یعنی فرنس آئل اور کوئلے سے بجلی پیدا کی، 9 روپے فی یونٹ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز لاگو ہوئے، 13 ارب روپے کا اضافی بوجھ حکومت نے برداشت کیا، زرعی ٹیوب ویلز کو بھی چھوٹ دی گئی۔ اگست اور ستمبر میں صارفین کو66 ارب روپے کا ریلیف دے چکے ہیں، اس مہینے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ صرف 22 پیسے رہ جائے گی۔ وفاقی وزیر صاحب کا کہنا تھا کہ مستقبل میں درآمد شدہ ایندھن سے بجلی نہیں بنائیں گے اور بجلی صرف ان ذرائع‘ جو ملک کے اندر ہی دستیاب ہیں‘ جیسے شمسی و جوہری توانائی، ونڈ، ہائیڈل اور کوئلے سے ہی بنائی جائے گی۔ حکومت ہوشربا بلوں کا جواز پیش کرے یا ڈالر کی قدر میں کمی کو اپنی کامیابی گردانے‘ حقیقت یہی ہے کہ امریکی ڈالر کی قدر کم ہونے سے حکومت کو سیاسی بیانات کے لیے مواد تو مل رہا ہے لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے لیکن اب جبکہ ڈالر کی قدر میں بیس روپے سے زائد کی کمی واقع ہو چکی ہے تو پھر اشیائے ضروریہ کے نرخ کم کیوں نہیں ہو رہے اور اشیائے خور و نوش سمیت سب کچھ مہنگے سے مہنگا ہی کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کااصل امتحان صرف ڈالر سستا کرنا نہیں بلکہ آٹا، گھی، دالوں اور دیگر اجناس کو عوام کی دسترس میں لانا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنا ہے اور کم از کم موسم سرما میں عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا ہے۔ حکمران اتحاد جس تندہی سے اپنی ضرورت کے مطابق قانون سازی کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے اگر اسی رفتار اور معیار سے اشیائے ضروریہ کے نرخ کم نہ کیے گئے تو پھر آئندہ انتخابات میں اسے عوامی غضب کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔