سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جب پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی قیادت یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ملک کی معاشی صورتحال بدترین ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ملکی معیشت اتنی سکت نہیں رکھتی کہ آسانی سے اپنے پائوں پرکھڑی ہو سکے، مہنگائی اور بیروزگاری اپنے عروج پر تھی اور عوام کی قوتِ خرید جواب دے چکی تھی۔ موجودہ حکمران اتحاد کے قائدین یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے لیے سازگار نہیں تھی اور اگر فوری الیکشن ہو جاتے تو عوام پی ٹی آئی حکومت سے اپنی سخت ناراضی کا اظہار ووٹ کی صورت میں کرتے مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میاں شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے فوری طور پر الیکشن میں جانے کے بجائے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکمران اتحاد پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں نہ بیٹھنے کے اعلان سے فائدہ اٹھا کر اپنی مرضی کی قانون سازی کرنا چاہتا تھا جس میں موجودہ حکومت 90 فیصد تک کامیاب بھی رہی لیکن دوسری طرف معیشت کو سنبھالنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ حکومت نہ تو مہنگائی کم کر سکی اور نہ ہی بیروزگاری کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے آ سکا۔ معیشت سنبھلنے کے بجائے روز بروز تباہی سے دوچار ہوتی چلی گئی۔ پہلے ایک وزیر خزانہ کی جادوگری کے حوالے سے بہت کچھ سنایا گیا لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہ آ سکا۔ سنتے تھے کہ ایک بار آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے تو پھر ملکی معیشت پٹڑی پر آ جائے گی، یہ سارے بحران ختم ہو جائیں گے، عام آدمی کے لیے بھی آسانیاں میسر آئیں گی۔ جب معاہدہ ہو گیا اور ڈالر قومی خزانے میں آ گئے‘ اس کے بعد بھی عوام کو کوئی ریلیف نہ مل سکا۔ جب حکومت اقتصادی صورتحال کنٹرول کرنے میں بالکل بے بس ہو گئی تو پھر عوام کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ اب کی بار یہ خواب دکھایا گیا کہ اسحاق ڈار لندن سے واپس آنے والے ہیں، بس ان کی واپسی کی دیرہے کہ ڈالر اپنی قدر کھو بیٹھے گا اور ملک میں خوشحالی آ جائے گی، ہرچیز سستی ہو جائے گی، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نمایاں طور پر کم ہو جائیں گی اور اشیائے خور و نوش واپس 2017ء والے نرخوں پر دستیاب ہوں گی۔ پھر اسحاق ڈار صاحب کے وطن واپسی کے لیے جہازمیں بیٹھتے ہی اچانک خوش خبری ملی کہ امریکی ڈالر کی ٹانگیں کانپ گئی ہیں اور پاکستانی روپیہ تگڑا ہونے لگا ہے۔ قوم نے دیکھا کہ واقعی ڈار صاحب کے آنے سے ڈالر کچھ دنوں تک تنزلی کا شکار رہا،240 روپے تک پہنچنے والا امریکی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 219 روپے تک گر گیا لیکن یہ جادو زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور پھراچانک ڈالر نے دوبارہ انگرائی لی اور آہستہ آہستہ اوپر جانے لگا۔ اب یہ دوبارہ 226 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ چند روزکی مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو کاروباری ہفتے کے پہلے روز امریکی کرنسی کی قدر میں 82 پیسے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ڈالر 219 روپے 25 پیسے پر ٹریڈ ہوا۔ گزشتہ ہفتے کاروبار کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ ہوا اور ڈالر 5 پیسے مہنگا ہو کر 218 روپے 43 پیسے پر بند ہوا جبکہ اوپن مارکیٹ میں 4 روپے مہنگا ہو کر یہ 226 روپے پر بند ہوا۔ بعض حلقوں کا الزام ہے کہ اسحاق ڈار صاحب نے مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی امریکی ڈالر کومصنوعی طریقے سے روکے رکھا لیکن اس وقت حالات اس قدر سنگین نہیں تھے، اس بار بھی انہوں نے مصنوعی طریقے سے پاکستانی کرنسی کومضبوط کرنے کی کوشش کی مگر اب حالات ماضی سے یکسر مختلف ہیں اور موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تجربات کے باوجود صرف چند یوم تک ہی ڈالر کو نیچے لانے کی کوشش کر سکے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل پر اعتراض کرنے والے نئے وفاقی وزیر خزانہ بھی آئی ایم ایف کے سامنے بے بس ہو گئے۔ پٹرول پر لیوی میں 45 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اور پٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 47 روپے 26 پیسے فی لٹر کر دی گئی ہے، عوام کو عالمی مارکیٹ میں سستے ہوتے پٹرول پر کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ اوگرا کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 16 اکتوبرکو پٹرول پر لیوی میں 45 فیصد اضافہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے یکم جنوری تک لیوی 50 روپے فی لٹر کرنے کی شرط پر نئی قسط جاری کی تھی۔
شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا تو راقم الحروف نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ''نومنتخب وزیراعظم کوچاہئے کہ جس رفتار سے انہوں نے پہلے روز کام شروع کیا، وہی رفتار اور جذبہ وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد بھی جاری رکھیں تاکہ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ عوام کو حقیقی تبدیلی کی جھلک نظر آئے اور عام آدمی کی گھبراہٹ ختم ہو سکے، اگر اتحادی حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئی اور عوامی منصوبوں کو بہتر انداز میں مکمل کیا گیا تو اگلے انتخابات میں عوام ان کا بھرپور ساتھ دیں گے ورنہ پھر سابق حکومت تو اپنا بیانیہ مقبول کرانے میں کوشاں ہے ہی۔ عوام کو اگر اب بھی ریلیف نہ ملا تو پھر عام آدمی اس بیانیے کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے گا‘‘۔ ان چھ ماہ کے دوران وہی کچھ ہوا ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت اپنی من پسند قانون سازی میں لگی رہی، وفاق کے بعد عجلت میں پنجاب حکومت کو بھی تبدیل کیا گیا مگر شاید مکمل تیاری نہیں تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبائی حکومت جلد ہی ہاتھ سے نکل گئی اور عوامی مسائل بھی حل نہ ہو سکے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کم ہونے کے بجائے خوفناک حد تک بڑھ گئیں، ڈالر دوبارہ اونچی اڑان بھرنے لگا، تمام حکومتی دعوے ناکام ہو گئے۔ چہرے بدلنے سے عوام کی پریشانی کم نہ ہوئی بلکہ آئے روز بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کا بدلہ عوام نے حالیہ ضمنی انتخابات میں لے لیا ہے۔ قومی اسمبلی کے آٹھ اور پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا لگ بھگ صفایا ہو گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اکیلے ہی قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہے۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں دو نشستیں آئیں۔ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں سے دو حلقے پی ٹی آئی کے نام رہے جبکہ (ن) لیگ صرف ایک صوبائی سیٹ جیت سکی۔ ملکی سیاسی تاریخ میں یہ ایک منفرد مثال ہے کہ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سات نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے جبکہ آٹھویں نشست پر شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی پی ٹی آئی کی امیدوار تھیں، جن کا مقابلہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی سے تھا۔ مہنگائی کی حالیہ بے قابو لہر نے سابق حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیا اور عوام نے معاشی تباہی کا بدلہ موجودہ حکمرانوں سے لے لیا۔ عمران خان نے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے پشاور میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا بدلہ ضمنی انتخابات میں فتح کی صورت میں خود لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو شکست دے کر ثابت کیا ہے کہ ان کی مقبولیت پوری پی ڈی ایم سے زیادہ ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ وفاق میں بیٹھے حکمران نوشتۂ دیوار پڑھ لیں اور اس عبرتناک شکست سے سبق سیکھیں۔ مصنوعی دعوے اور جھوٹے وعدے کرنے کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پرتوجہ دیں۔ صرف اپنی مرضی کی قانون سازی اور آئینی ترامیم پر ہی سارا زور صرف نہ کریں بلکہ اگر واقعی کچھ کر سکتے ہیں تو آٹا، چینی، گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر کے دکھائیں۔ عام آدمی آئی ایم ایف کی شرائط کو نہیں سمجھتا، غریب کو صرف اپنی دال روٹی کی فکر ہے تاکہ اس کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔ اگر تو اس سہ ماہی میں حکومت عوام کوحقیقی ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئی تو شائد آئندہ عام انتخابات میں کچھ بات بن جائے ورنہ ان ضمنی انتخابات کو ریفرنڈم یا اگلے عام انتخابات کا ٹریلر ہی سمجھیں۔