نئے اضلاع اور انتظامی مسائل

وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے انتظامی لحاظ سے پنجاب میں پانچ نئے اضلاع بنانے کی منظوری دی ہے اور ان اضلاع کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ اضلاع ہیں؛ تلہ گنگ، مری، وزیرآباد،تونسہ شریف اور کوٹ ادو۔ ضلع تلہ گنگ تحریک تقریباً تین دہائیوں سے جاری ہے، یہ پہلے ضلع اٹک (کیمبل پور) کی تحصیل تھا، جب میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن مقامی قیادت اور ارکانِ اسمبلی کی مبینہ نااہلی کے باعث اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک (مرحوم) نے تلہ گنگ کی جگہ چکوال کوضلع بنوا لیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں اس کو ضلع قرار دینے کی تحریک جاری رہی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نیا بلدیاتی نظام رائج ہوا تو ناظم یونین کونسل دھولر میجر (ر) ملک امیر محمد خان (مرحوم) دیگر ناظمین کے ساتھ مل کر تلہ گنگ ڈویلپمنٹ کونسل کا قیام عمل میں لائے۔ وہ اپنی تحصیل کو نہ صرف ضلع کا درجہ دلوانا چاہتے تھے بلکہ اسے تعمیر و ترقی کے اعتبار سے پاکستان کا ایک مثالی خطہ بنانے کے خواہشمند تھے لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، میجر صاحب 9 ستمبر 2003ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے جس کے بعد ان کا سارا مشن ادھورا رہ گیا اور 'ضلع تلہ گنگ‘ کی تحریک بھی قدرے سست پڑ گئی؛ تاہم چودھری غلام ربانی سمیت مختلف سیاسی، سماجی اور صحافتی شخصیات نے اس تحریک کو زندہ رکھا لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تحصیل تلہ گنگ کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے اس تحریک میں اپنا بھرپور حصہ نہیں ڈالا۔ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پہلے بھی اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے گزشتہ دور میں بھی ڈھوک سبال سمیت دور دراز علاقوں تک بجلی، سڑکیں اور دیگر ترقیاتی سکیموں کا جال بچھا دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سابق صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کو علاقے میں اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں چودھری پرویزالٰہی تلہ گنگ ہی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ حافظ عمار یاسر یہاں سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دلوانے کا اعلان کیا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی چونکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہوئے تھے‘ اس لیے انہوں نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مابین انتخابی اتحاد کے باعث پنجاب میں اہم عہدے کی پیشکش پر تلہ گنگ سے قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی اور ان کی جگہ چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادے وفاقی وزیر چودھری سالک حسین یہاں سے ایم این اے منتخب ہو گئے جبکہ پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی اور حافظ عمار یاسر صوبائی وزیر بن گئے۔ رواں برس سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کچھ عرصے بعد سردار عثمان بزدار کے سر سے پنجاب کی پگ بھی اتر گئی اور حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہونا پڑا۔ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے بیس میں سے پندرہ سیٹوں پر انتخاب جیت کر اپنی پارٹی پوزیشن کو مستحکم کیا اور پھر پی ٹی آئی کے تعاون سے چودھری پرویز الٰہی دوسری بار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ اس بار حافظ عمار یاسر صوبائی وزیر تو نہ بن سکے لیکن اس کے باوجود انہوں نے چودھری صاحب کو 2018ء کے انتخابات میں تلہ گنگ کے عوام سے کیا گیا وعدہ یاد دلایا اور ضلع تلہ گنگ کی تحریک تیز کر دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اہالیانِ تلہ گنگ کے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ وفا کیا اور مری، تونسہ، وزیرآباد اور کوٹ ادو کے ساتھ تلہ گنگ کو بھی ضلع بنانے کی اصولی منظوری دے دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تلہ گنگ کے سابق ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے اس تحریک میں اپنا پورا حصہ نہیں ڈالا لیکن حافظ عمار یاسر نے پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل (ر) نور خان (مرحوم) اور میجر (ر) ملک امیر محمد خان (مرحوم) کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
یقینا نئے اضلاع بننے سے صوبے کے انتظامی امور میں بہتری آئے گی۔ تلہ گنگ کے انتظامی ضلع بننے سے تعلیم، صحت اور دیگر شہری سہولتوں میں اضافہ ہو گا، ترقی کے ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں گے اور علاقہ مالی خود مختاری کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ضلع بننے سے روزگار کے بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمیت ہر شعبے میں جدید سہولتوں کا اضافہ ہوگا۔ نئے سرکاری دفاتر بنیں گے، کئی شعبے اور محکمے پہلی بار تلہ گنگ میں آفس بنائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، تعلیم و صحت کے چیف ایگزیکٹو افسران، ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر، چیئرمین ضلع کونسل اور دیگر ضلعی افسران کے دفاتر کے لیے لوگوں کو اب چکوال جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے نہ صرف لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے بلکہ سینکڑوں نئی اسامیاں بھی پیدا ہوں گی جن پرکم از کم پچاس فیصد مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس سے لوگوں کا وقت بھی بچے گا اور مہنگائی کے اس دور میں غیر ضروری سفر سے نجات ملے گی۔
نئے اضلاع کی ضرورت اس وقت بھی پیش آئی جب گزشتہ برس موسم سرما میں برف باری دیکھنے کے شوقین کئی سیاح مری میں شدید برف باری کے باعث پھنس گئے اور راستے بند ہو جانے کے باعث برف تلے دب کر بیس کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس وقت حکومت نے مری کو انتظامی طور پر الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا تھا۔ مری میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بھی تعینات کیا گیا لیکن سنگین مسائل کے حل کے لیے یہی حتمی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک مری کو انتظامی لحاظ سے مکمل ضلع قرار نہیں دیا جاتا‘ سانحۂ مری جیسے دلخراش واقعات کا خوف طاری رہے گا کیونکہ اگر متعلقہ اتھارٹیز موقع پر موجود ہوتیں اور بروقت فیصلے کیے جاتے تو قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ خیر اب مری کو بھی ضلع بنا دیا گیا ہے۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور دیگر افسران کے ہمراہ مری کا دورہ کرکے ڈسٹرکٹ کمپلیکس کے لیے مختلف جگہوں کا جائزہ لے لیا ہے جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ اب ملک بھر سے مری آنے والے سیاحوں کو زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکیں گی۔ امید ہے کہ کمشنر راولپنڈی ڈپٹی کمشنر چکوال کے ہمراہ تلہ گنگ کا بھی تفصیلی دورہ کر چکے ہوں گے اور اس نئے ضلع میں بھی دفاتر اور محکموں کے قیام کے لیے فیصلے ہو چکے ہوں گے۔ یہ تو موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کا ذاتی حلقۂ انتخاب بھی ہے اور ان کی مستقبل کی سیاست بھی انہی لوگوں سے وابستہ ہے‘ لہٰذا انہیں یہاں خصوصی توجہ دینا ہو گی۔
تلہ گنگ ضلع تو بن گیا ہے لیکن سب سے اہم مسئلہ تو بلکسر تلہ گنگ میانوالی روڈ ہے جس پر سے پاکستان کی سب سے بھاری ٹریفک گزرتی ہے۔ خیبر سے کراچی کو ملانے والی سب سے قدیم و مصروف شاہراہ یہی ہے لیکن دو رویہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہر روز انتہائی خوفناک حادثات رونما ہوتے ہیں اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ اس اہم منصوبے کو چند لوگوں کی معمولی کرپشن کی نذر نہ ہونے دیں اور وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری طور پر سڑک کو دو رویہ کرنے کی منظوری کروائیں کیونکہ اس وقت ترقیاتی کام جاری ہے اور اس منصوبے میں توسیع آسان ہے۔ اگر موجودہ حالت میں اسے مکمل کر دیا گیا تو یہ صرف قومی دولت کا ضیاع ہوگا اور خدا نخواستہ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔ اسی طرح ضلع کے تمام اہم انتظامی عہدوں پر ضلع چکوال کے افسران کو اضافی چارج دینے کے بجائے فوری طور پر مستقل تعیناتیاں عمل میں لائی جانی چاہئیں کیونکہ نئے ضلع میں ضلعی افسران کو زیادہ وقت دینا پڑے گا اور بہتر فیصلے کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے دورۂ تلہ گنگ کے موقع پر چکوال اور تلہ گنگ کو ڈویژن بنانے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ تلہ گنگ میں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے علاوہ نوکریوں پر سے پابندی اٹھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امید ہے کہ ان اقدامات سے مقامی لوگوں کو حقیقی سہولت میسر آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں