صبرودانشمندی ہی سب کے مفادمیں ہے!

پاکستانی سیاست بھی بڑی عجیب شے ہے۔ جب کوئی سیاست دان اقتدار میں ہوتا ہے تو اسے آئین، قانون اور جمہوریت‘ سب کچھ یاد ہوتا ہے لیکن جونہی وہ کرسی سے اتر جائے تو پھر وہ حصولِ اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے نہ تو ملک وقوم کے نفع و نقصان کی پروا رہتی ہے اور نہ ہی عوامی مفاد پیشِ نظر رہتا ہے۔ ہماری سیاست میں دولت، منصب، اثر و رسوخ، سرکاری وسائل، برادری ازم، لسانیت اور مذہبی کارڈ کا استعمال پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن اب کھلم کھلا قومی اداروں کو جس طرح سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے‘یہ روش ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے اداروں کی ساکھ کو خواہ مخواہ متاثر کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسی روایت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے جس کا انجام خاصا تلخ ہو سکتا ہے۔ اداروں پر پہلے بھی سیاست میں مداخلت کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں لیکن زیادہ تر باتیں الزام تراشی کی حد تک ہی رہیں مگر اب تو ہمارے سیاست دان ہر بات میں قومی اداروں کو براہِ راست ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ جو پارٹی یا جو سیاست دان جس بات کو اپنے مفاد میں سمجھتا ہے‘ اس کے لیے قومی اداروں اور ان کی لیڈرشپ کو براہ راست مداخلت کی دعوت دے دیتا ہے اور جو عمل اس کے خلاف جا رہا ہو، اس کا سارا ملبہ بھی قومی اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں کی سوچ ایسی سطحی ہو چکی ہے کہ وہ دفاعی اور ریاستی اداروں کو بھی اپنے سیاسی کارکنان کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ عدلیہ سے اپنی مرضی و مفاد کے مطابق فیصلے لے کر مخالفین کو آئوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں یہ سب کچھ تشویشناک ہے، وہیں امید کی ایک کرن یہ بھی ہے کہ ہمارے ادارے واضح کر چکے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات میں مکمل غیر جانبدار ہیں، ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور انہیں خواہ مخواہ سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ پاک فوج کے ترجمان ایک نہیں‘ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ادارے غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن ہیں اور سیاست دان اپنے بیانات میں اداروں اور ان کی قیادت کے حوالے سے بیان بازی سے گریز کریں جبکہ اعلیٰ عدلیہ بھی کئی کیسز میں یہ واضح کر چکی ہے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جانا چاہئے اور عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش نہ کی جائے، عدالت کا کام صرف آئین و قانون کی حفاظت کرناہے، جہاں بھی آئین، قانون اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہو گا تو عدالت اس میں فیصلہ دے گی لیکن سیاسی معاملات پارلیمنٹ خود حل کرے۔ فوج اور عدلیہ جیسے اہم ریاستی اداروں کے صاف اور واضح مؤقف کے باوجود سیاست دان اپنے معاملات پارلیمنٹ میں یا آئینی طریقے سے مل بیٹھ کر حل کرنے کے بجائے قومی اداروں کی اشیرباد چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے عسکری حکام نے بڑے واضح انداز سے پیغام دیا کہ بعض سیاست دان ذاتی مفادات کے لیے اداروں کو سیاست میں ملوث کرنا چاہتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ ادارے مکمل طور پر غیر جانبدار ہیں اور اپنے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی حفاظت اور خدمت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے، مگر اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کی سوچ وہیں پر اٹکی ہوئی ہے۔
پُرامن سیاسی جدوجہد، قانون و انصاف اور جمہوریت کے داعی سابق وزیراعظم عمران خان نے تند و تلخ بیان بازی اور مقتدر شخصیات پر براہِ راست تنقید سے سب کو حیران کر دیا ہے۔ انہیں شاید اب بھی یہی امید ہے کہ قومی ادارے سیاست میں مداخلت کر کے موجودہ حکومت کو گھر بھیج کر انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے معاون کا کردار ادا کریں گے، حالانکہ گزشتہ چھ ماہ سے اداروں کی جانب سے مسلسل یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اب کبھی بھی سیاست میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور صرف حکومت وقت کی درخواست پر ہی آئین و قانون پر عملدرآمد کے لیے اپنی خدمات فراہم کی جائیں گی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے تھے۔ ان کا ماضی پُرامن سیاسی جدوجہد پر محیط ہے لیکن موجودہ سیاسی تلخی ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے خود خان صاحب کی سیاست بھی داغدار ہو رہی ہے۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت لانگ مارچ کے شرکا کو سہولت فراہم کرنے کے لیے سرکاری وسائل استعمال کر رہی ہے اور یہ مارچ جب راولپنڈی کے قریب پہنچے گا تو خیبر پختونخوا کی سرکار بھی اپنا بھرپورحصہ ڈالے گی جبکہ آزاد کشمیر حکومت بھی اپنے وسائل سے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے پوری طرح تیار بیٹھی ہے۔ ان حالات میں عمران خان کو چاہئے کہ بیانات سے آگے نکل کر اپنے پارٹی رہنمائوں کو سختی سے ہدایات جاری کریں کہ لانگ مارچ میں کوئی بھی مسلح شخص شامل نہ ہو، کیونکہ ایک طرف وفاقی حکومت کے احکامات پر ہماری فورسز امن و امان بحال رکھنے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے چوکنا ہوں گی اور ایسے میں اگر خدا نخواستہ دوسری جانب سے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں‘ ان کے بارے میں سوچ کر ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔ انجامِ کار ملک و قوم کو خدا نخواستہ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
الحمدللہ ہمارے پاس دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔ سکیورٹی کے ضامن اداروں کے پاس رپورٹس موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ لانگ مارچ میں بھی چند شرکا کے پاس اسلحہ موجود تھا۔ اداروں کو چاہئے کہ پُرامن لانگ مارچ میں اسلحہ لانے والے اور خونریزی کی ناپاک خواہش رکھنے والے عناصر کی فہرست مرتب کر کے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر انہیں قرار واقعی سزا دلائی جائے اور ایسے شرپسندوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی سیاسی احتجاج کی آڑ میں فساد اور انتشار پھیلانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ احتجاج کرنا یقینا کسی بھی فرد یا سیاسی جماعت کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کا مطلب پُرامن طریقے سے اپنی بات کو ریکارڈ پر لاناہے۔ اپنی ہی ریاست، اداروں یا شہریوں کے خلاف اسلحے کے استعمال کی بالکل بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے لانگ مارچ ہوئے ہیں۔ خود پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں پُرامن طریقے سے ایک سو چھبیس دن تک دھرنا دیا ہے، آئندہ بھی پُرامن احتجاج سب کا حق ہے لیکن اسلحے کا استعمال، یا اس کی نمائش اور قومی اداروں کو سیاست میں ملوث کرنا قطعاً درست روش نہیں ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے احسن طریقے سے پورا کرنا حکمرانوں کا امتحان ہوتا ہے۔ سیاسی قائدین جب اورجہاں مرضی احتجاج کریں لیکن خدا کے لیے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قومی اداروں کو ہرگز استعمال نہ کریں۔ ویسے بھی یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت سے عاجز آ چکے تھے‘ بالکل ویسے ہی اب موجودہ حکمرانوں سے بھی مایوس نظر آ رہے ہیں۔ اگر عمران خان کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو عوام خود ہی اسے عام انتخابات میں مسترد کر دیتے۔ دوسری جانب اگر موجودہ حکمران اتحاد مہنگائی ختم کر کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو شاید عوام سکھ کا سانس لیتے اور کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہ بنتے مگر موجودہ حکومت کی ساری تدبیریں الٹی ہو چکی ہیں اور مہنگائی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ لہٰذا اب اگر کپتان چند ماہ مزید انتظار کر لیں تو شاید آئندہ عام انتخابات میں بحرانوں تلے دبے عوام ایک بار پھر انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرا دیں گے کیونکہ بظاہر مہنگائی اور بیروزگاری کا گراف مزید بڑھتا ہی نظر آ رہا ہے اور مستقبل قریب میں دودھ وشہد کی نہریں بہنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ آنے والے انتخابات اپوزیشن کے لیے ہی موزوں ہوں گے مگر حالات کا تقاضا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی امتحان اور عوام کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے صبر اور دانشمندی سے کام لیا جائے‘ یہی سب کے مفاد میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں