سیاسی احتجاج اورعوامی مشکلات

محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان صرف اپنے ذاتی مفادات کو ہی بنیادی انسانی حقوق سمجھتے ہیں جبکہ عوامی حقوق تو دور کی بات‘ شاید وہ عام آدمی کو برابر کا شہری بھی نہیں سمجھتے۔ جب سیاستدانوں نے عوام سے ووٹ لینے ہوتے ہیں اس وقت نہ صرف ان کے دروازے چوبیس گھنٹے عام شہریوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے حلقے کے ہر ووٹر کی دہلیز تک بھی جاتے ہیں، انہیں گلے لگاتے ہیں، بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے ہیں، ہر ووٹر کے دروازے تک بجلی، پانی، گیس، سیوریج لائن، پختہ گلی اور سڑک بچھانے جیسے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کرتے ہیں اور ان کے اپنے ڈیروں پر لنگر بھی چل رہا ہوتا ہے۔ وہ علاقے کے کچے راستوں کو پختہ اور چوراہوں اور شاہراہوں کو کشادہ کرانے کے لیے نہ صرف عملی اقدامات کا آغاز کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات ووٹروں کو یقین دلانے کے لیے سرکاری فنڈز کی منظوری سے پہلے ذاتی خرچ پر ہی تعمیراتی کام شروع کرا دیتے ہیں جس کے بعد علاقے کے معززین اپنے اس عوام دوست سیاستدان کو ووٹ دینے اورکامیاب کرانے کیلئے مشترکہ طور پر اعلان کرتے ہیں اور بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ وطن عزیز کے شہری گزشتہ سات دہائیوں کے تلخ تجربات کے باوجود ہر بار سیاسی رہنمائوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور ان کے دکھائے گئے سبز باغوں پر اس قدر پختہ یقین کر لیتے ہیں جیسے انہیں پہلی بار کوئی نیک، ایماندار، قابل، بے لوث اور محب وطن لیڈر ملا ہو، لیکن ان کی یہ ساری خوش فہمیاں الیکشن ڈے پر ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے تک ہی برقرار رہتی ہیں اور جونہی انتخابی نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو ہارنے والے امیدوار پانچ سال کے لیے یہ کہہ کر غائب ہو جاتے ہیں کہ جن کو لوگوں نے ووٹ دیے ہیں، اب اپنے کاموں اور مسائل کے حل کے لیے بھی انہی کے پاس جائیں کیونکہ ہمارے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب جو علاقے کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتاہے‘ وہ سکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر سب سے پہلے اپنے گھر کے دروازے بند کرتا ہے، پھر اس کے ڈیرے پر چلنے والے لنگر پر بھی غریبوں کی روٹیاں بند ہو جاتی ہیں۔ حلقے کے ترقیاتی کاموں کو یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ پہلے ہماری پارٹی کی حکومت بن جائے‘ پھر سارے وعدے پورے کیے جائیں گے۔ حکومت بن جاتی ہے لیکن پھر وزارت کا حلف اٹھانے تک لارے لگائے جاتے ہیں اور جس علاقے کا عوامی نمائندہ وزیر بن جائے تو وہ یہ کہہ کر عوام کو ٹرخا دیتا ہے کہ مجھے تو فلاں وزارت دی گئی ہے جبکہ یہ کام تو دوسری وزارت کا ہے، یعنی کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دیا جاتا ہے اور بھولے بھالے عوام اپنے ان فریب کار سیاسی رہنمائوں کی باتوں پر اس طرح یقین کر لیتے ہیں جیسے ان جیسا سچا اورکھرا انسان کوئی اور ہے ہی نہیں۔ پھر جب تک یہ عوامی نمائندے اقتدار میں ہوتے ہیں‘ سکیورٹی، پروٹوکول، سرکاری مصروفیات اور ذمہ داریوں کے نام پر عوام سے دور‘ بہت دور رہتے ہیں اور اس وقت تک عام آدمی کو اپنی شکل دکھانا پسند نہیں کرتے جب تک ان کی پانچ سالہ مدت پوری نہ ہو جائے یا انہیں اقتدار سے نکال باہر نہ کر دیا جائے۔ اقتدار سے نکلتے ہی یا دوبارہ الیکشن قریب آتے ہی انہیں حلقے کے ووٹرز پھر سے یاد آ جاتے ہیں اور ایک بار پھر سے عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے میدان میں اتر کر جوتیاں چٹخانے لگتے ہیں۔
سولہ وزارتوں کے مزے لوٹنے والے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدان ہمیشہ مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ ان کا یہ فقرہ ملک کی مجموعی قومی سیاست کا احاطہ کرتا ہے اور اس کی زد میں وہ خود بھی آ جاتے ہیں۔ عوام اگر غیر جانبدارانہ سیاسی تجزیہ کریں تو شاید پاکستان میں ایک بھی ایسا سیاستدان آسانی سے نہ مل سکے جو اپنی سیاست یا اقتدار کے بجائے خالصتاً عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر سیاسی اکھاڑے میں قومی مسائل کے خلاف دائو پیچ لڑا رہا ہو۔ الا ماشاء اللہ سبھی سیاست دان اقتدار میں رہتے ہوئے عوامی پہنچ سے دور ہوتے ہیں لیکن جونہی انہیں کوئی ٹھوکر لگتی ہے یا حزبِ اقتدار سے حزبِ اختلاف میں آنا پڑتا ہے تو پھر سے نہ صرف وہ عوام کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ دوبارہ سے عام آدمی کے حقوق کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین (حکومت) کے خلاف احتجاج شروع کر دیتے ہیں جس کا اصل مقصد اپنی حکومت کے خاتمے پر آوازاٹھانا ہوتا ہے یا پھر اپنے مخالفین کے لیے مشکلات کھڑی کرنا لیکن اسے نام ایسا خوشنما دیا جاتا ہے کہ عام آدمی اسے اپنے حقوق کی جنگ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبھی مہنگائی مارچ کیا جاتا ہے اور کبھی درپیش مسائل سے آزادی دلانے کے نام پر تحریک چلائی جاتی ہے۔ لوگ بھی ماضی کو بھول کر ایک بار پھر ان سیاست دانوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔
موجودہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی مثال ہی لے لیں، جب تک پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ان کی اتحادی جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تو ہر روز مہنگائی، بیروزگاری، معاشی بدحالی، روپے کی بے قدری، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور غیر ضروری ٹیکسوں کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جاتا تھا جبکہ سابق وزیراعظم اور حکومت کی اتحادی جماعتیں یا تو سبھی مسائل سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی تھیں یا پھر مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کا شاخسانہ قرار دیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مسائل اور بحرانوں پر قابو پانے کے لیے ٹھوس حکومتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ تقریباً ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں پی ٹی آئی حکومت کی پہلی ترجیح اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا اور انہیں کرپٹ ثابت کرنا رہی۔ ایسی صورت حال میں عوام بھی اس کے خلاف ہو گئے اور جب مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تو لوگوں نے توقعات وابستہ کرنا شروع کر دیں کہ اب حکومتی نااہلی سے جان چھوٹے گی اور ڈالر یکدم سستا ہو گا جس سے پٹرول پھر سے سو روپے فی لٹر پر آ جائے گا اور مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا مگر ہوا کیا؟ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں صرف چہرے ہی تبدیل ہوئے۔ عمران خان اپوزیشن میں چلے گئے جبکہ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے اور ان کے سبھی اتحادی جہاز سائز کابینہ میں وزارتوں کے مزے لوٹنے لگے۔ مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہونے کے بجائے مزید بے قابو ہو گیا اور عوام کو تگنی کا ناچ نچانے لگا۔ پہلے جو تھوڑا بہت گزارہ ہو رہا تھا‘ وہ بھی محال ہو گیا۔ دوسری طرف معاشی حالات اس قدر ابتر ہو گئے کہ لوگ پچھلے دور کو یاد کرنے لگے۔ اس صورتحال میں عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے پر کئی بیانیے بنائے اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام ان بیانیوں سے ہم آہنگ بھی ہو گئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے 2018ء کے الیکشن کے بعد اقتدار سنبھالا تھا اور جو پہلے سو دن، پھر چھ ماہ، پھر ایک سال کے دوران تبدیلی کے دعوے کرتی رہی۔ جب کچھ نہ بن پایا تو سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر کہا گیا کہ وزیراعظم آلو پیاز کے ریٹ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ آج وہی خان صاحب ایک بار پھر آلو‘ پیاز کے ریٹ کم کرانے اور عوام کو مہنگائی جیسے مسائل سے آزادی دلانے کیلئے لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
بلاشبہ آئین ہر شہری کو احتجاج کا جمہوری حق دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی شخصیت یا جماعت اپنے حق کے حصول کیلئے ملک بھر کا پہیہ جام کر کے عوام کیلئے مشکلات پیدا کرے۔ اعلیٰ عدلیہ موٹرویز اور دیگر سڑکوں کی بندش سے عوامی مشکلات کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں غیر یقینی کی صورتحال ہے کہ نجانے کس وقت اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں سڑکیں بند ہو سکتی ہیں جس سے کئی غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور کئی مریض بروقت ہسپتالوں میں پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسلام آبادہائیکورٹ کا دھرنے کے حوالے سے ایک فیصلہ موجود ہے، اسی طرح احتجاج کیلئے بھی ایک گائیڈ لائن جاری کی جانی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے سیاسی احتجاج سیاستدانوں کے ذاتی مفاد اور عوامی مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں