پاکستانی سیاست چند مہینوں سے گتھم گتھا ہے۔ ہمارے سیاست دان جمہوریت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق تھوڑے مختلف ہیں اور اب تو ملک کا ایک عام شہری بھی یہ بات سمجھ چکا ہے کہ ہمارے لیڈروں کی نظر میں جمہوریت صرف اقتدار ہے، جو بھی پارٹی حزبِ اقتدار میں ہوتی ہے تو وہ اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کو جمہوریت پر حملہ سمجھتی ہے جبکہ حزب اختلاف کی نظریں ہمیشہ حکومت گرانے کے لیے غیر سیاسی قوتوں کی طرف اٹھتی ہیں۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں جب سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو انہوں نے ریاستی اداروں سے رابطہ کرکے اپنے خلاف تحریک کو ناکام بنانے کی استدعا کی جسے یہ کہہ کر مسترد کر دیاگیا کہ سیاستدان اپنے معاملات خود حل کریں اور اداروں کو سیاست سے باز رکھیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ عسکری قیادت نے جو کہا‘ وہ کر کے بھی دکھایا۔ یعنی سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر آج تک مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں بعض سیاسی قوتوں کو اداروں کا نیوٹرل ہونا بھی پسند نہ آیا کیونکہ وہ انہی سے مدد کے طلبگار تھے۔ اداروں پر بے جا تنقید بھی ہوئی لیکن عسکری قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحمل و برداشت سے کام لیا اور اپنے قول پر ڈٹی رہی جس کا اظہار سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کے دوران بڑے جامع انداز میں کیا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ گزشتہ سال فروری میں فیصلہ کیا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، اس آئینی عمل کا خیر مقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر مناسب اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا، اداروں پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چنائو اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ہماری فوج دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، گاہے گاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے، جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، سینئر قیادت کو مختلف القابات سے نوازا گیا، صبر کی حد ہوتی ہے، ہم نے درگزر سے کام لیا، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ غیر ملکی سازش ہو اور فوج خاموش رہے؟ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ پاک فوج کبھی ملکی مفاد کے خلاف نہیں جا سکتی، غلطیاں سیاسی جماعتوں سے بھی ہوئی ہیں۔ ہمیں پاکستان میں جمہوری کلچر کو فروغ دینا ہے۔ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے بعد ایک آنے والی حکومت کو امپورٹڈ کہا گیا، 2018ء کے انتخابات کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو سلیکٹڈ کہا، ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا، ہار جیت سیاست کا حصہ ہے، ہر جماعت کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا تاکہ اگلے الیکشن میں امپورٹڈ اور سلیکٹڈ کے بجائے الیکٹڈ حکومت آئے۔ کوئی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور آگے بڑھیں۔ پاکستان کو بحران سے نکالیں، عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں ایک سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا، ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے عزم پر کاربند ہیں، قیادت کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن ملک کے خلاف نہیں جا سکتی، جو سمجھتے ہیں عوام اور اداروں میں دراڑیں ڈال دیں گے‘ یہ ان کی بھول ہے۔ فوج کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے، فوج نے ہمیشہ مینڈیٹ سے بڑھ کر ملک اور قوم کی خدمت کی اور کرتی رہے گی۔
سپہ سالار کاخطاب ملک کے سب سے اہم قومی ادارے کی جامع پالیسی کا خلاصہ قرار دیا جا سکتا ہے جسے عوامی سطح پر بہت سراہا گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عسکری قیادت نے دیر آید‘ درست آید کے مصداق قوم کی امنگوں کے مطابق پختہ عزم کا اظہار کیا ہے اور اب یہ ذمہ داری ہماری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی نعروں اور دعووں کے بجائے حقیقی طور پرجمہوری اقدار کوفروغ دے اور قومی معاملات اتفاق رائے سے حل کرے تاکہ مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر درپیش بحرانوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے ملک میں جو غیر یقینی صورتحال بنتی جا رہی تھی، راولپنڈی؍ اسلام آباد کے شہری جس پریشانی میں مبتلا تھے اور جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ شاید لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ جڑواں شہروں کے شائقین پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے‘ یہ خوش آئند ہے کہ ان خدشات کو رد کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں زمان پارک لاہور میں برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کی سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ اچھی خبر ملی کہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ میچ شیڈول کے مطابق راولپنڈی ہی میں کھیلا جائے گا اور پی ٹی آئی کے لانگ مارچ؍ دھرنے سے اس میچ کے انعقاد میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔
دوسری بلکہ اس وقت کی سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے بھیجی گئی اہم تعیناتیوں کی سمری پر فوری دستخط کر دیے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف مقرر ہو گئے ہیں جبکہ جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر ہو گئے ہیں۔ جنرل عاصم منیر پاکستان کے 17ویں آرمی چیف تعینات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے منگلا میں آفیسرز ٹریننگ سکول پروگرام کے ذریعے پاک فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، بطور بریگیڈیئر اُس وقت کے کمانڈر ٹین کور جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت شمالی علاقہ جات میں فورس کمانڈ کی۔ جنرل عاصم منیر کو 2017ء کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس تعینات کیا گیا۔ اکتوبر 2018ء میں انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا؛ تاہم اس عہدے پر وہ8 ماہ ہی تعینات رہ سکے۔ اس کے بعد بطور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر 2 سال تک کور کمانڈر گوجرانوالہ رہے جس کے بعد وہ جی ایچ کیو راولپنڈی میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہوں گے جو ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں اور جو اعزازی شمشیر (سورڈ آف آنر) یافتہ ہیں۔ بطور لیفٹیننٹ کرنل مدینہ منورہ میں تعیناتی کے دوران 38 سال کی عمر میں جنرل عاصم منیر نے قرآن پاک حفظ کیا۔
نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے پی ایم اے سے تربیت مکمل کر کے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے عسکری کیریئر کا آغاز 8 سندھ رجمنٹ سے کیا۔ ساحر شمشاد مرزا ستمبر 2021 ء سے کور کمانڈر راولپنڈی تھے۔ یہ جون 2019ء میں چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے اور مختصر مدت کے لیے ایڈجوٹنٹ جنرل جی ایچ کیو بھی رہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا اکتوبر 2018ء میں وائس چیف آف جنرل سٹاف تعینات ہوئے۔ اس سے قبل انہوں نے 2015ء سے 2018ء تک بطور ڈی جی ملٹری آپریشنز خدمات سرانجام دیں۔ ساحر شمشاد مرزا بطور لیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈیئر اور میجر جنرل ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
طویل بحرانوں کے بعد ملک میں اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ فوج تو پہلے ہی غیر جانبدار رہنے کا پختہ عہد کر چکی ہے جو یقینا خوش آئند ہے اور اب امید کی جا رہی ہے کہ 26 نومبر کو راولپنڈی؍ اسلام آباد میں جلسے کے بعد عمران خان بھی لانگ مارچ اور دھرنا ختم کر دیں گے اور سیاسی حالات معمول پر آ جائیں گے۔ اب سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ اگلا سال عام انتخابات کا ہے اورسب نے عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے‘ اس لیے آپس کی لڑائیاں چھوڑ پر مل کر معاشی مسئلے کے حل پرتوجہ دیں تاکہ ملک میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔