ملک میں توانائی بحران کو کم از کم دو دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چلا ہے اور اس میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔ بظاہر حکومت نے ابھی تک بجلی اور گیس کے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس اور مستقل قدم ہی نہیں اٹھایا حالانکہ ہم بچپن سے بجلی اور گیس پیدا کرنے کے مختلف سستے اور آسان ذرائع کے بارے میں پڑھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک عام فہم آدمی بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو نہ صرف ملک میں وافر سستی بجلی میسر ہوتی بلکہ ہماری زراعت بھی فروغ پا سکتی تھی، لیکن ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں نے مل کر پاکستانی معیشت، توانائی اور زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر سکنے والے اس اہم قومی منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا اور مبینہ طور پر بیرونی آقائوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے چند ضمیر فروش اس اہم ترین اور مفید منصوبے کی راہ میں آج تک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح ہم نے بجلی اور گیس پیدا کرنے کے چھوٹے اورگھریلو منصوبوں پربھی توجہ نہیں دی اور نہ ہی سرکاری سطح پر ایسے مفید اور سستے منصوبوں بارے عوام میں آگاہی پیدا کی گئی۔ دیہات میں جانوروں کے گوبر کو کھاد کے لیے استعمال کرنا عام بات ہے اور اس کے دہرے فوائد ہیں۔ ایک تو گوبر ٹھکانے لگ جاتاہے اور دوسرا‘ اس کھاد سے فصلیں زیادہ بہتر پیداوار دیتی ہیں، لیکن اس کے باوجود گوبر سے گیس پیدا کرنے کے منصوبوں پر آج تک اس طرح عمل درآمد نہ ہو سکا یا انہیں ترجیح نہیں دی جا سکی جس طرح ان سے فائدہ اٹھانے یا ان کو فروغ دینے کی ضرورت تھی۔ گوبر سے گیس پیدا کرنے کے منصوبے کو عام کر کے ایک طرف ماحول کو صاف رکھا جا سکتا ہے، دوسری طرف سستی گھریلو گیس بھی دستیاب ہو سکتی ہے جس سے شہری مہنگے ترین گیس سلنڈروں کے استعمال سے بچ سکتے ہیں۔
ہم نے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے بجلی و گیس کے چھوٹے، سستے اور آسان ذرائع پرکام کرنے کے بجائے کبھی رینٹل پاور منصوبے متعارف کرائے توکبھی مہنگی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع پر انحصار کیا۔ اسی طرح توانائی کی درآمدات سے قومی خزانے کا بوجھ بھی بڑھایا۔ ہماری حکومتوں نے تو آج تک ملک میں شمسی توانائی سے مفت یا سستی بجلی حاصل کرنے کے لیے بھی عوام کوکوئی سہولت مہیا نہیں کی، نہ ہی اس حوالے سے عوام میں شعور بیدار کیا گیا بلکہ ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جن سے اس کارآمد منصوبے کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ سب اقدامات ایک طرف‘ ہم تو آج تک اپنے ملک میں دن کی روشنی کا صحیح استعمال بھی نہیں کر سکے۔ دنیا بھر کے سبھی ترقی یافتہ ممالک میں لوگ سورج نکلتے ہی‘ صبح سویرے اپنے کام کاج کا آغاز کر دیتے ہیں اور دن ڈھلنے سے پہلے 80 فیصد سے زائد کام و کاروبار بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس سے ان قوموں کی زندگی میں ایک ڈسپلن قائم رہتا ہے، انہیں اپنے آرام اور فیملی کے لیے وقت بھی مل جاتا ہے اور دن کی روشنی میں کام کرنے کی وجہ سے بجلی کی ساٹھ سے ستر فیصد بچت بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے عوام کو نہ تو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی بھاری بل ادا کرنا پڑتے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران بھی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے ایسے چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کرنے کے لیے عوام کو آگاہی دینے کے ساتھ وسائل بھی فراہم کریں تاکہ توانائی بحران پرقابو پایا جا سکے۔
اب ایک حوصلہ افزا خبر نظرسے گزری ہے۔ ''وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی زیر صدارت توانائی مسائل کے حل کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں لاہور میں سالڈ ویسٹ سے انرجی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ناروے کی کمپنی کی جانب سے روزانہ 1250 ٹن سالڈ ویسٹ سے 55 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی پیشکش کی گئی، اجلاس میں نارویجن کمپنی کے نمائندے نے پروجیکٹ پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں 40 ملین ٹن سالڈ ویسٹ موجود ہے، روزانہ 5 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ جمع ہو رہا ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ نارویجن کمپنی ابتدائی طور پر 250 ملین ڈالر سرمایہ کاری کرے گی، سالڈ ویسٹ سے حاصل کردہ انرجی سندر انڈسٹریل سٹیٹ میں صنعتوں کو دی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے نارویجن کمپنی کو یقین دلایا کہ لاہور میں سالڈ ویسٹ سے انرجی پیدا کرنے کے پروجیکٹ میں قواعد کے مطابق پوری معاونت کریں گے، پنجاب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہیں، رکاوٹ حائل نہیں ہونے دیں گے، ناروے، جرمنی اور دیگر ممالک سے آنے والے سرمایہ کاروں کی معاونت کو تیار ہیں‘‘۔ دیر آید، درست آید کے مترادف پنجاب حکومت کایہ اقدام لائقِ تحسین ہے۔ ایسے منصوبے راولپنڈی اور دیگر شہروں میں بھی بلاتاخیر شروع کیے جائیں اور آئندہ آنے والی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ ایسے فلاحی منصوبوں میں سیاسی بنیادوں پر رکاوٹ ڈالنے کے بجائے انہیں آگے بڑھائیں اور سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
راولپنڈی شہر کے وسط‘ تاریخی لیاقت باغ کے علاقے میں راولپنڈی پریس کلب، لیاقت باغ سپورٹس کمپلیکس، لیاقت باغ پارک، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، واسا اور پی ایچ اے کے دفاتر سے ملحقہ اراضی پر کروڑوں روپے کی لاگت سے خواتین کے لیے خوبصورت 'لیڈیز جم پارک‘ تعمیر کیا گیا تھا جہاں روزانہ ہزاروں خواتین اور بچے ورزش اور سیر و تفریح کے لیے آتے تھے۔ یہ راولپنڈی شہر میں خواتین کے لیے واحد پارک تھا جہاں مرد حضرات کا داخلہ ممنوع تھا اور خواتین خود کو محفوظ تصور کرتی تھیں۔ 2013-14ء میں راولپنڈی؍ اسلام آباد میٹرو بس منصوبے پرکام کا آغاز ہوا تو لیڈیز جم پارک کی جگہ عارضی طور پر ایک کمپنی کو اس شرط پر دے دی گئی کہ جب میٹرو بس منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو مذکورہ کمپنی اس جگہ پر پارک دوبارہ تعمیر کرے گی۔ اس مقصد کے لیے اس تعمیراتی کمپنی نے بطور زر ضمانت بھاری رقم بھی جمع کرائی تھی لیکن جب منصوبہ مکمل ہو گیا اور جڑواں شہروں کے مابین میٹرو بس سروس کا افتتاح ہو گیا تو دیگر کمپنیوں نے تو معاہدوں کے مطابق تمام شرائط پوری کر دیں لیکن مذکورہ پارک کی دوبارہ تعمیر نہ ہو سکی۔ پارک کی تعمیر کے لیے کنسٹرکشن کمپنی سے بطور ضمانت لی گئی بھاری رقم کا بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گئی اورکس منصوبے پرخرچ ہوئی۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو شاید کوئی بھی اس طرف توجہ نہ دیتا اور اب تک وہ پارک کسی نہ کسی شکل میں بحال ہو چکا ہوتا۔ بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ یہ پارک شہر میں صفائی کا انتظام سنبھالنے والی ایک غیر ملکی کمپنی کو دے دیا گیا جس نے یہاں پورے شہر کا کوڑا کرکٹ غیرقانونی طور پر ڈمپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ابتدا میں اس کے خلاف بڑا احتجاج ہوا، انتظامیہ اور پنجاب حکومت نے یقین دہانیاں کرائیں کہ بہت جلد کوڑے کا ڈمپنگ پوائنٹ یہاں سے منتقل کر دیا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ کوڑے کرکٹ کی وجہ سے لیاقت باغ کا اہم ترین علاقہ بدبو، تعفن اور وبائی امراض کی لپیٹ میں آیا رہتا ہے۔ موسم گرما اور برسات کے دنوں میں اس علاقے میں سانس لینا تک محال ہو جاتا ہے۔ لیاقت باغ سپورٹس کمپلیکس میں بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور سکواش سمیت مختلف کھیلوں کے نیشنل و انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے لیے ٹریننگ و پریکٹس کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اب 20 کروڑ روپے کی لاگت سے عالمی معیار کا سوئمنگ پول اور سپورٹس ہاسٹل بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں لیکن اگر کوڑے کا ڈمپنگ پوائنٹ فوری طور پر شفٹ نہ کیا گیا تو یہ منصوبے بھی قابلِ عمل نہیں رہیں گے۔ پنجاب حکومت کو چاہئے کہ لاہور کی طرح راولپنڈی میں بھی سالڈ ویسٹ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے غیرملکی کمپنیوں کو مدعو کرے تاکہ ڈمپنگ پوائنٹ کو شہر سے باہر منتقل کر کے اس سے سستی بجلی پیدا کی جا سکے، اس طرح لیڈیز پارک کو بھی بحال کیا جائے۔ اس سے راولپنڈی شہر کا ماحول صاف ہو گا اور شہریوں کو سستی بجلی بھی میسر آ سکے گی۔