اب وہ دور نہیں رہاکہ مہنگائی کاجن بے قابو ہوتا تھا تو عوام اس کی کارستانیوں سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آتے تھے‘ عوام بھرپور احتجاجی مظاہرے کرتے‘ تاجر برادری شٹرڈائون کردیتی اور ٹرانسپورٹ برادری ملک بھر میں پہیہ جام کردیتی‘ وکلا صاحبان عدالتوں میں پیش نہ ہوتے‘ طالب علم کلاسوں کابائیکاٹ کردیتے‘ یوں ملک بھر میں کاروبارِ زندگی عارضی طور پر معطل ہوتا تو حکومتی و انتظامی مشینری حرکت میں آ جاتی تھی اور مظاہرین و ہڑتالی کارکنوں سے مذاکرات کرکے ان کے مطالبات سنے جاتے‘ حکام بالا تک پہنچائے جاتے اور پھر جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرا دی جاتی جس کے بعد احتجاج بھی ختم ہو جاتا تھا اور عوام کی شنوائی بھی ہو جاتی۔ اب تو سوشل میڈیا پر اگر کوئی جھوٹی خبر بھی چلا دے کہ پٹرول اور ڈیزل اتنے روپے مہنگے ہورہے ہیں تو لوگ احتجاج کے بجائے فوراً پٹرول پمپوں کا رخ کر لیتے ہیں تاکہ جلدی جلدی تیل مہنگا ہونے سے پہلے ہی فیول ٹینک بھروا لیں اورکم ازکم ایک دن تو مہنگے پٹرول سے بچ سکیں۔ اب نہ تو کوئی احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلتا ہے‘ نہ ہی تاجر دکانیں بند کرتے ہیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یعنی حکومت جتنی مرضی مہنگائی کرلے‘ شہریوں کوصرف اس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ نئے نرخ نامے کے اطلاق سے پہلے پہلے وہ خریداری کرلیں۔ اس وقت پاکستان میں امریکی ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوڑ چل رہی ہے‘ کبھی ڈالر اوپر جاتاہے تو کبھی پٹرول کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ موجودہ مہنگائی سے غریب آدمی کا جینا تو محال ہے ہی لیکن سب سے زیادہ متاثر سفید پوش طبقہ ہو رہا ہے کیونکہ غریب آدمی تو سب کی نظروں میں ہوتا ہے‘ لوگ اس کی مدد بھی کر دیتے ہیں اور وہ خود بھی حالات کے مطابق گزارا کرنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے‘ جبکہ سفید پوش آدمی آج کل حالات سے سخت پریشان ہونے کے باوجود نہ تو کسی سے ادھار مانگ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔ اسے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے صاف ستھرے کپڑے بھی پہننا پڑتے ہیں اور پیٹ خالی ہونے کے باوجود چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بھی سجا کر رکھنا پڑتی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ہم رواں ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات‘ ایل پی جی‘ دودھ‘ سونا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ایک نظر ڈال لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان میں مہنگائی کا جن کس قدر بے قابو ہو چکا ہے۔ چند روز قبل حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے‘ پٹرول کی قیمت میں 22.20روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا‘ جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 272روپے فی لٹر ہوگئی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.20روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت280روپے ہوگئی۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت 9.68روپے فی لٹر اضافے کیساتھ 196.68روپے مقرر کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 12.90روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا‘ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 202.73روپے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 26.62روپے مہنگا کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ ایل پی جی کے 11.8کلو گرام کے گھریلو سلنڈر کی قیمت 3ہزار 141روپے 29پیسے ہوگئی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق فی کلو ایل پی جی2.26روپے مہنگی ہوگئی‘ نئی فی کلوقیمت 266.21روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی سے خبر آئی ہے کہ گزشتہ تین روز میں دودھ فروشوں نے فی لٹر دودھ کی قیمت میں 20روپے اضافہ کر دیا ہے۔
مذکورہ بالا اعداد و شمار دہرانے کا مقصد عوام کو صرف یہ باور کرانا ہے کہ موجودہ مشکل حالات کی کچھ ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ اب حکمران طبقہ جتنے مرضی ٹیکس لگا دے یا قیمتیں بڑھا دے‘ ہم اُف بھی نہیں کرتے۔ حکومت کی جانب سے ضمنی مالیاتی بِل 2023ء پیش کیا گیا جس پر عوام تو کیا حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے بھی محض روایتی بیانات سے آگے کچھ نہ کیا۔ وفاقی کابینہ نے170ارب روپے ٹیکس کے مالیاتی بل کی منظوری دے دی۔ منی بجٹ میں کوکنگ آئل‘ گھی‘ بسکٹ‘ جام‘ جیلی‘ نوڈلز‘ کھلونے‘ چاکلیٹ‘ ٹافیوں پر ٹیکس 17فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کر دیا گیا۔ صابن‘ شیمپو‘ ٹوتھ پیسٹ‘ شیونگ کریم‘ میک اَپ کا سامان‘ کریم‘ لوشن‘ ہیئر کلر‘ پرفیوم اور برانڈڈ عطر پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ موبائل فون‘ ٹیبلٹس‘ لیپ ٹاپ سمیت آلات بھی مہنگے ہوں گے۔ ٹی وی‘ ایل ای ڈیز‘ ایل سی ڈیز‘ فریج‘ واشنگ مشین‘ جوسر بلینڈرز اور فوڈ فیکٹریز سمیت الیکٹرونکس آئٹم بھی مہنگے ہوں گے۔ منی بجٹ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کا فوری نفاذ کر دیا گیا۔ حکومت نے لگژری آئٹم پر سیلز ٹیکس 25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس 17سے بڑھا کر 18فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں پر 10فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت سے متعلق بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیزکے تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ رواں سال کے پہلے 6ماہ میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 33فیصد ہو سکتی ہے۔ اس مالیاتی بل کا جائزہ لیں تو اس میں اشیائے ضروریہ‘ میک اَپ کے سامان اور سگریٹ و تمباکو کی مصنوعات کو ایک ہی کھاتے میں رکھا گیا ہے حالانکہ دنیا بھر میں کھانے پینے کے سامان اور اشیائے ضروریہ پر ٹیکس یا تو ہوتا ہی نہیں یا اس کی شرح بہت کم ہوتی ہے جبکہ سگریٹ اور شراب وغیرہ پر ٹیکسوں کی بھاری شرح عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں شراب کی عام فروخت ممنوع ہے اور ہمارے مذہب میں بھی حرام قرار دی گئی ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ اشیائے خورونوش پر ٹیکس مکمل معاف کردے اور اس کے بدلے نشہ آور اشیا پر ٹیکس کی شرح میں پانچ سو فیصد تک اضافہ کر دیا جائے کیونکہ یہ زندہ رہنے کے لیے ضروری نہیں بلکہ عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح وہی خریدے گا جو قوتِ خرید کی استطاعت رکھتا ہوگا اور اس سے حکومت کو ٹیکس ریکوری بھی ہو سکے گی۔
پاکستان کی معاشی صورتحال تباہی کے دہانے پر ضرور ہے اور اسے راہِ راست پر لانے کے لیے حکمرانوں کو مشکل فیصلے ضرور کرنے چاہئیں لیکن عوامی مشکلات کو بھی مدنظر رکھ کر اشیائے ضروریہ اور خورونوش پر ٹیکس چھوٹ دی جائے جبکہ بڑی گاڑیوں‘ میک اَپ کے سامان‘ سگریٹ اور تمباکو کی مصنوعات جیسی اشیا پر ٹیکس بیشک موجودہ شرح سے دوگنا کر دیا جائے تو بھی اس کا اثر عام آدمی پر کم پڑے گا۔ حکمرانوں نے عوام کو مشکلات سے نہ نکالا‘ پٹرول اور ڈالر کی ریس چلتی رہی تو پھر شاید اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے اور وہ سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔ حکمران یہ بھی یاد رکھیں کہ رواں برس الیکشن کا سال ہے اور وہی ایک دن ہوتا ہے جب ایک غریب شہری بھی اپنے ووٹ سے سارے بدلے چکا سکتا ہے۔