آئین فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قاعدہ، قانون، دستور العمل، ضابطہ، ملک کا بنیادی قانون، دستورِ اساسی اور رواج کے ہیں۔ قانون کے معنی جڑ، بنیاد، قاعدہ، دستور، ضابطہ، رسم و رواج، طور، ڈھنگ ہیں جبکہ انصاف کے معنی داد، عدل، دو ٹکڑے کرنا، فیصلہ کرنا ہیں۔ دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایک عام شہری سے لے کر سربراہانِ مملکت تک‘ سبھی آئین و قانون پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہیں اور اگر کوئی فرد جرم یعنی قانون شکنی کرے تو عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کی مالی یا سیاسی حیثیت دیکھے بغیر فیصلہ سناتی ہیں اور پھر کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ عدلیہ کے فیصلے سے ذرا سا بھی انحراف کر سکے۔ دنیا کے جس جس خطے میں آئین و قانون پر سو فیصد عمل درآمد کیا جاتا ہے‘ وہاں امیر و غریب کی تفریق کے بغیر انصاف عام ہے اور وہی ممالک ترقی یافتہ ہیں جبکہ جن ممالک میں قانون شکنی عام ہو، بااثر اور امیر طبقہ مادر پدر آزاد ہو اور تمام قاعدے و قوانین صرف غریب، لاچار اور بے بس افراد کے لیے ہوں تو ایسے معاشرے کبھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی انہی ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں سارے دستور اور ضابطے صرف غریب، بے سہارا اور چھوٹے طبقات کے لیے ہیں، جن کے پاس دولت ہے یا اختیار ہے‘ وہ آئین و قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا تو انہوں نے اپنی جماعت کانام پاکستان تحریک انصاف رکھا۔ ان کا منشور ہی یہ تھا کہ ملک میں امیر و غریب کے لیے الگ الگ قوانین رائج ہیں‘ غریب چھوٹی سی چوری کرے تو ساری زندگی جیل میں گزار دیتا ہے اور بااثر طبقہ جو مرضی ظلم وستم کرے‘ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خان صاحب کی سیاست کا محور ہی یہ تھا کہ جب تک طاقتور کو عدل و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جائے گا‘ اس وقت تک ملک سے کرپشن، ناانصافی اور افراتفری ختم نہیں کی جا سکتی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کہتے تھے کہ ملک میں دہرا قانون ہے اور جب تک طاقتور قانون کی گرفت سے آزاد رہے گا‘ اس وقت تک ملک شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے تھے کہ وہ خود کو آئین و قانون سے ماورا سمجھتے ہیں، لیکن جوں جوں وہ سیاست میں آگے بڑھتے گئے‘ ان کا یہ منشور محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گیا۔ 2014ء میں انہوں نے لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا اور پھر اسلام آباد میں 126دن تک دھرنا دیا، یہ دھرنا اسلام آباد کے ریڈ زون میں بھی دیا گیا تھا۔ لیکن جب 2018ء میں وہ برسر اقتدار آئے تو کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے احتجاجی مظاہرے، لانگ مارچ یا ریڈ زون میں دھرنے کی کال کو وہ آئین شکنی اور ملک دشمنی کے مترادف گردانتے تھے۔ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوئی اور وہ حزبِ اقتدار سے حزبِ اختلاف میں چلے گئے‘ اس پر انہوں نے ایک بار پھر 2014ء والی احتجاجی سیاست شروع کر دی اور اب یہ سب کچھ ان کی نظر میں آئین شکنی اور ملک دشمنی نہیں بلکہ بنیادی حق تھا۔
جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو سابق حکمران عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ اس وقت خان صاحب اور ان کی جماعت کے لیڈران فرماتے تھے کہ عدالتوں کو آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی سیاسی شخصیت کو کوئی رعایت نہیں دینی چاہئے اور امیر و غریب‘ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے بلکہ طاقتور طبقات اور سابق حکمرانوں کے ساتھ زیادہ سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو کرپشن و آئین شکنی کی جرأت نہ ہو، لیکن اب جب پی ٹی آئی کی قیادت کی پیشیاں بھگتنے کی باری آئی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں‘ وہ ملک کے مشہور و معروف کرکٹر رہ چکے ہیں‘ وہ ایک بڑے سماجی کارکن اور ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہیں لہٰذا ان کے ساتھ ایک عام شہری جیسا سلوک نہ کیا جائے بلکہ انہیں خاص رعایت دی جائے۔ انہیں عدالتوں میں بار بار نہ بلایا جائے بلکہ اگر ضروری ہو تو وڈیو لنک کے ذریعے گھر بیٹھے ان کا بیان ریکارڈ کر لیا جائے۔ آج کل انہیں عدالتیں بلاتی ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے‘ وہ پیش نہیں ہو سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے ایک مقبول لیڈر ہیں، وہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بھی ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے ورلڈ کپ جیتا۔ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کی مداح ہے لیکن ہم گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے انہی کی زبانی یہ سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں امیر وغریب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہئے، طاقتور کو بھی کٹہرے میں لانا ہو گا اور سب کو یکساں انصاف فراہم کرنا ہو گا۔ اگر بات صرف عدالتوں میں عدم پیشی تک ہی محدود رہتی تو شاید یہ بھی قابلِ قبول تھا کیونکہ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے اور عدالتوں میں کیسز عدم پیروی کے باعث یکطرفہ بھی سماعت ہو سکتے ہیں‘ جو خود ملزم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اشتہاری بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہاں بات کچھ آگے نکل چکی ہے۔ عدالتوں نے خان صاحب کو بلایا، ایک عام پاکستانی کا گمان تھا کہ شاید خان صاحب آئین و قانون کا احترام کرتے ہوئے عدالتوں میں پیش ہوں گے اور اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ایک مثال بنیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور بتایا گیا کہ وہ وزیرآباد حملے کے بعد زخمی ہیں‘ جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع کیا ہوا ہے اور وہ صحت یاب ہونے کے بعد ہی عدالتوں میں پیش ہو سکیں گے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم کے زخم قدرے بہتر ہو گئے اور وہ سہارے سے چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے لیکن عدالتوں میں پیشی کے لیے پھر بھی تیار نہ ہوئے۔ اس بار بتایا گیا کہ ان پر ایک بار جان لیوا حملہ ہو چکا ہے اور دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے‘ لہٰذا ان کی جان کو خطرہ ہے۔ الغرض عدالتوں میں حاضری سے استثنا کے لیے مختلف حیلے بہانے بنائے جاتے رہے۔
خان صاحب ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، ملک کے نظامِ حکومت کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں‘ وہ بخوبی یہ جانتے ہوں گے کہ کسی بھی شہری‘ خصوصاً سابق سربراہانِ مملکت کی سکیورٹی سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک غریب شہری اپنی جان کو لاحق خطرات کے باوجود عدل کے ایوانوں میں پیش ہوتا ہے تو انہیں بھی عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اور اپنی ماضی کی جدوجہد کے مطابق عمل کا نمونہ پیش کرتے ہوئے عدالتوں میں اپنی حاضری یقینی بنانی چاہیے۔ ایک عام شہری کے مقابلے میں ان کی سکیورٹی کے لیے فول پروف انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ پرائیوٹ سکیورٹی بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہے، ایسے میں خدشات کی بنا پر عدالتوں میں عدم حاضری درست روش نہیں۔
یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ خان صاحب اپنے ہی سیاسی منشور پر عمل نہ کر سکے اور طاقتور کو کٹہرے میں لانے کے لیے دو‘ ڈھائی دہائیوں تک وہ جو تحریک چلاتے رہے‘ اب ان کی اپنی باری آئی تو اسی کی نفی کرنے لگے ہیں۔ زمان پارک میں عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے جانے والی پولیس پارٹی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ جس طرح پولیس کو پتھر مارے گئے اور پٹرول بم پھینکے گئے‘ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت اور اس کے کارکنوں سے اس روش کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ خان صاحب کو چاہئے کہ وہ اپنے کارکنان کو پُرامن رہنے کی ہدایات جاری کریں اور عدالت میں ازخود پیش ہوکر ایک روشن مثال قائم کریں۔ وہ آئین وقانون پر عمل درآمد کریں گے تو ہی ملک میں یکساں نظام کی راہ ہموار ہو گی، اسی طرح ان کی چھبیس سالہ سیاسی جدوجہد رنگ لائے گی اور وطن عزیز ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا۔