ایک واقعہ جو شاید کبھی نہ بھلا پائوں! جب بھی رحمتوں اور برکتوں والا ماہِ مقدس آتا ہے تو وہ واقعہ بھی یاد آ جاتا ہے اور ایک بار دل تو کیا‘ سارا جسم ہی خوف سے کانپ جاتا ہے۔ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے ایک مزدور کی بیوی نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا کہ سودا سلف لینے کے لیے بازار گئی تھی‘ جتنے پیسے لے کر گئی تھی ان میں آدھی چیزیں بھی نہ آ سکیں کیونکہ وہاں ہر شے کے نرخ دو سے تین گنا بڑھ گئے ہوئے تھے، اس پر اس مزدور نے اپنی بیوی سے کہا: چلو کوئی بات نہیں‘ تھوڑا صبر کر لیں گے‘ تجھے پتا ہے کہ روزے شروع ہونے والے ہیں‘ اس لیے ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، چار ہفتوں کی بات ہے، مقدس مہینہ گزر جائے گا تو پھلوں اور سبزیوں سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پھر اپنی جگہ پر آ جائیں گی۔
ایک بار دسمبر کے مہینے میں بیرونِ ملک جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں دوستوں نے بتایا کہ کرسمس کی وجہ سے تمام بازاروں میں ''سیل‘‘ لگی ہوئی ہے۔ اگر فیملی کے لیے کچھ تحائف وغیرہ خریدنے ہیں تو قیمتیں پچاس سے ستر فیصد تک کم ہیں، ہم بھی سال بھر کی زیادہ تر شاپنگ ایسے مواقع پر ہی کرتے ہیں کیونکہ یہاں تاجر اور صنعتکار اپنے مذہبی تہواروں پر بہت زیادہ ڈسکائونٹ دیتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے وہی بھٹے والے مزدور کا واقعہ یاد آ گیا اور یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ جو تعلیمات ہمارے آقا نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ نے ہمیں دی ہیں‘ جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں‘ جو سبق ہمیں قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ سے ملتا ہے اور جو مسلمانوں کی اعلیٰ ترین روایات ہیں‘ ہم ان سے کتنے دور ہوتے جا رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے ہم مختلف مسائل و بحرانوں میں پھنستے اور دھنستے جا رہے ہیں۔ مغربی دنیا نے مسلمانوں سے سیکھی ہوئی روایات آج بھی اپنا رکھی ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیاوی لحاظ سے ہم سے بہتر ہے اور ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔
اتوار کو شہریوں نے جب خریداری کے لیے سستے بازاروں سمیت کاروباری مراکز کا رخ کیا تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو ایسا جھٹکا لگا کہ اوسان خطا ہو گئے۔ ابھی رمضان المبارک میں چند دن باقی تھے مگر سستے بازاروں تک میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں حالانکہ اتوار بازاروں میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں عام مارکیٹ کے مقابلے میں کم ہوا کرتی ہیں لیکن گزشتہ اتوار کو جب شہری خریداری کے لیے سستے بازاروں میں پہنچے تو وہاں بھی ہر چیز کی قیمت میں بیس سے تیس فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا جس نے شہریوں کو استقبالِ رمضان کی فہرست کو محدود کرنے پر مجبور کر دیا۔
چند روز قبل ایک خبر نظر سے گزری تو سوچا کہ شاید اس کا کوئی مثبت اثر پڑے اور رمضان المبارک کے مہینے میں پاکستانی عوام کو کچھ ریلیف مل سکے لیکن ابھی تک ایسے کوئی آثار نہیں نظر آ رہے۔ خبر تھی کہ عالمی مارکیٹ میں تیل، گیس اور کوئلے کی قیمتوں میں واضح کمی ہو گئی، عالمی آئل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 66.77 ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔ برینٹ کروڈ آئل کی قیمت 4.1 فیصد کمی سے 72.80 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ عالمی مارکیٹ میں گیس اور کوئلے کی قیمت میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ کوئلے کی قیمت اس وقت 137 ڈالر فی ٹن ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین‘ روس جنگ کے بعد یہ قیمت 450 ڈالر فی ٹن سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔ کوئلہ سستا ہونے سے پاکستان میں بجلی بنانے والے اور سیمنٹ ساز اداروں کو فائدہ ہو گا، دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں گیس اور تیل کی قیمتیں کم رہیں تو پاکستان کو مستقبل میں تیل اور گیس کی خریداری پر ریلیف مل سکے گا۔ ایک اور اچھی خبر یہ ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کم آمدن والے پٹرولیم صارفین کیلئے ریلیف پیکیج بارے جائزہ اجلاس ہوا، وزیر مملکت برائے پٹرولیم نے کم آمدن والے افراد تک پٹرولیم سبسڈی کی فراہمی کی حکمت عملی پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کم آمدن عوام کیلئے 50 روپے فی لٹر تک پٹرولیم ریلیف پیکیج میں موٹر سائیکل، رکشا کے علاوہ 800 سی سی تک کی چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والے صارفین کو بھی شامل کیا جائے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امیر کو 100 روپے زیادہ جبکہ غریب کو 100 روپے کم میں پٹرول ملے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے نفاذ سے متعلق چھ ہفتے کے اندر اندر فیصلہ ہو گا۔ حکومت نے اعلان تو کر دیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا عملی نفاذ کب ہوتا ہے اور غریب کو کیا واقعی سستا پٹرول میسر آتا ہے یا نہیں۔ یادش بخیر! اکتوبر 2021ء میں اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی یہ اعلان کیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک ہفتے میں موٹر سائیکل سواروں کو سستا پٹرول فراہم کیا جائے گا مگر چھ ماہ بعد تک بھی پی ٹی آئی حکومت اس اعلان کو عملی اقدام میں نہیں ڈھال سکی۔ اب موجودہ حکومت نے اعلان کیا ہے تو اس کا عملی نفاذ بھی دیکھنا ہو گا۔
موجودہ دور میں اگر کسی کو ایک روپے کا بھی ریلیف مل سکے تو ضرور ملنا چاہئے لیکن ہمیں تو آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس طرح کی جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں‘ ان سے مستحقین کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سرمایہ داروں کو کتنا فائدہ پہنچایا جاتاہے۔ احساس راشن پروگرام سے بھی یقینا بہت سے مستحقین کو ریلیف ملا ہو گا لیکن اس کے لیے غریب کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑے ہوں گے اور کن مراحل سے گزر کر چند روپے سستا راشن ملا ہوگا‘ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ اس بات کا مقصد حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈیز پر تنقید کرنا ہرگز نہیں بلکہ حکمرانوں اور اربابِ اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اس طرح کی مشروط سبسڈیز سے عام آدمی بہتر طور پر مستفید نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مہنگائی میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ موٹرسائیکل یا چھوٹی گاڑی رکھنے والے شہری تو شاید انفرادی طور پر مستفید ہوں لیکن جن غریبوں‘ مزدوروں کے پاس اپنی سواری نہیں، انہیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا؟ اسی طرح اگر پچاس روپے یا سو روپے (ابھی تک خود حکومت بھی واضح نہیں) مشروط سبسڈی کے بجائے ہر خاص و عام کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں تیس سے چالیس روپے کمی کر دی جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے سمیت اشیا کی ٹرانسپورٹیشن میں سہولت فراہم کی جائے تو مختلف اشیا کے نرخ کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح غریبوں کو مفت آٹے کی فراہمی بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے لیکن اگر اس سکیم کو مزید بہتر بنا کر اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمتیں کم کی جائیں تو شاید ملک بھر کے عوام مستفید ہو سکیں کیونکہ موجودہ مہنگائی سے ہر کوئی پریشان ہے اور یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ سخت معاشی بحران کے باعث سب سے زیادہ سفید پوش طبقہ متاثر ہوا ہے جس کے پاس نہ تو اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ مہنگائی کے باوجود اپنے خاندان کی تمام ضروریات پوری کرسکے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے مشروط سبسڈیز سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
کوئی اربابِ اختیار کو بتائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدہ اپنی جگہ‘ لیکن اہم فیصلے ملکی مفاد اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کیے جانے چاہئیں، کوئی انہیں یہ بھی بتائے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات اور شرائط طے کرنے والے وفود میں ایک بھی ایسا شخص شامل نہیں ہوتا جس کے مالی و معاشی مسائل غریب یا سفید پوش طبقے کی نمائندگی کر سکیں‘ انہیں تو آٹے اوردال کا صحیح بھائو بھی معلوم نہیں ہوتا لہٰذا عالمی معاہدوں کی پاسداری ضرور کریں مگر نئے معاہدے کرتے وقت وطن عزیز کے بیس‘ بائیس کروڑ عوام کے مسائل و مشکلات کو بھی سامنے رکھیں اور ماہِ مقدس میں عوام کو بلاتفریق حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔