گزشتہ کالموں میں ہم نے پاکستان کی زراعت کے حوالے سے بات کی اور اس بات کاجائزہ لیا کہ کہ ہماری زرعی پیداوار میں کمی کیوں واقع ہوتی جا رہی ہے، ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اجناس دوسرے ممالک سے درآمد کیوں کرنا پڑتی ہیں، قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے زیرِ کاشت رقبے میں اضافے کے بجائے کمی کیوں آ رہی ہے اور ہم کس طرح اپنے زیرِ کاشت رقبے کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی شعبہ زراعت کے حوالے سے دیگر مختلف پہلوئوں کابھی جائزہ لیا گیا جبکہ ابھی زرعی شعبے کے کچھ اہم معاملات پر گفتگو کرنا باقی ہے؛ تاہم آج ہم پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کا جائزہ لیں گے کیونکہ ملکی معیشت کا اس شعبے کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے۔ اس وقت ہمارے معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ تجارتی توازن کا غیر متوازن ہونا ہے۔ ہم یہ بھی جائزہ لیں گے کہ ایشیا کے اہم اور بڑے ممالک کے لیے پاکستانی برآمدات میں کمی کیوں واقع ہوئی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر برآمدات میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہوتا تو شاید آج امریکی ڈالر اس قدر بے قابو نہ ہوتا اور ہماری معیشت یوں تباہی کے دہانے پر نہ کھڑی ہوتی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال (2023ء) کے دوران برآمدات کے ساتھ ساتھ درآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ حکومت کی ''کفایت شعاری‘‘ کے باعث خاص طور پر چین سے درآمدات میں واضح کمی ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صارفین کو درآمدات کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) نہ جاری کرنے کی وجہ سے درآمدی کنٹینرز کی کلیئرنس کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کی برآمدات افغانستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ایران، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کیلئے کم ہو کر 2 ارب 41 کروڑ ڈالر ہو گئی ہیں جو جولائی 2022 ء سے فروری 2023ء تک پاکستان کی کل برآمدات (18 اعشاریہ 1 ارب ڈالر) کا صرف 12.92 فیصد ہیں۔ خطے میں پاکستان سب سے زیادہ برآمدات چین کو کرتا ہے، اس دوڑ میں پاکستان نے زیادہ آبادی والے بھارت اور بنگلہ دیش کو پیچھے چھوڑا ہے۔ چین کیلئے پاکستانی برآمدات میں مالی سال کی پہلی ششماہی میں سالانہ بنیادوں پر تنزلی دیکھی گئی ہے۔ پاکستان اپنی کل علاقائی برآمدات کا55.77 فیصد چین کو بھیجتا ہے جبکہ باقی برآمدات دیگر آٹھ ممالک کو بھیجتا ہے۔ رواں مالی سال میں جولائی سے فروری تک پاکستان کی چین کیلئے برآمدات 27.53 فیصد کم ہو کر ایک ارب 33 کروڑ ڈالر ہو گئیں جو پچھلے سال اسی عرصہ میں ایک ارب 84 کروڑ ڈالر تھیں۔ رواں مالی سال میں جولائی سے فروری تک سالانہ بنیادوں پر چین سے درآمدات 37.39 فیصد کم ہو کر 7 ارب 6 کروڑ 60 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔
افغانستان کیلئے پاکستانی برآمدات رواں مالی سال (جولائی سے فروری کے دوران) 17 فیصد اضافے کے بعد 34 کروڑ 65 لاکھ ڈالر ہو گئیں جو گزشتہ مالی سال میں اس عرصے کے دوران 29 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھیں۔ چند سال پہلے تک پاکستان کیلئے امریکہ کے بعد افغانستان دوسرا بڑا برآمدی ملک تھا مگر اب یہ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اعداد و شمار میں زمینی راستے کے ذریعے ہونے والی برآمدات شامل نہیں ہیں۔ نیز ملکی کرنسی میں ہونے والی برآمدات بھی شامل نہیں ہیں۔واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان تاجروں کو پاکستانی کرنسی میں درآمدات کی اجازت ملنے کے باوجود افغانستان کیلئے پاکستانی برآمدات میں اگست 2021ء سے کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔
ایک طرف ملکی برآمدات میں مسلسل کمی آ رہی ہے تو دوسری جانب درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے 25.3 بلین ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی درآمدات دگنی سے بھی زائد یعنی 56.38 ارب ڈالر رہیں۔ پاکستانی عوام کے لمحہ فکریہ اور حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان اب جھاڑو تک دوسرے ممالک سے درآمد کرنے لگا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے اور جھاڑو انڈونیشیا سے برآمد کیا جا رہا ہے۔ اس سے ہماری صنعتی ترقی اور پیداواری استعداد کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ برسوں سے پاکستان میں کارپیٹ انڈسٹری ملکی معیشت بہتر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی کارپیٹ انڈسٹری دنیا میں برآمد کی جانے والی چھٹی سب سے بڑی انڈسٹری تھی، لیکن یہ جان کر آپ کو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہو گا کہ پاکستان نے گزشتہ برس 83.6 ملین ڈالر کے کارپیٹ درآمد کیے۔ اس سال چائے پاکستان میں 13ویں سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی مصنوعات میں شامل تھی۔ تجارتی ذرائع کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان نے سب سے زیادہ چائے درآمد کی گئی۔ 2017ء میں پاکستان کی برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری پورا کرتی تھی، جبکہ بنا ہوا کپڑا بھی ایک بڑا درآمدی مال تھا مگر گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان نے دو سو ملین ڈالر کے بنے (سلے) ہوئے کپڑوں کی درآمدات کی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس 1.39 ملین ڈالر کی چھتریاں اور چلنے کی لاٹھیوں وغیرہ کی درآمدات کی گئیں۔ اس کے علاوہ 607.38 ملین ڈالر کی پاکستان میں ربڑ کی درآمدات کی گئیں۔ پاکستان میں تقریباً 50 ملین سے زائد مویشی جبکہ 40 ملین سے زائد دودھ دینے والی گائے؍ بھینسیں موجود ہیں جن کی پیداوار کو توجہ کے ساتھ مزید بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن اس تمام تر صورتِ حال کے باوجود پاکستان نے گزشتہ برس 68.9 ملین ڈالر کی ڈیری مصنوعات، انڈوں اور شہد کی درآمدات کی ہیں جوہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
وطن عزیز میں سمندری معیشت اور ماہی گیری کے لاتعداد وسائل موجود ہیں، لیکن گزشتہ دو برسوں میں پاکستان نے کئی ملین ڈالر کی مچھلی، گوشت اور سمندری غذائی درآمدات کی ہیں۔ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی سے دوچار ہے اور پاکستانی روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے‘ اگر ایسے ہی پاکستانی درآمدات میں اضافہ ہوتا گیا تو ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان اگر اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرے اور ملکی اشیا کو بیرونِ ملک سے آنے والی اشیا پر فوقیت دے تو اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ رواں برس کے آغاز پہ قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے پہلا قدم درآمدات کا متبادل تلاش کرنا ہونا چاہیے، چونکہ قومی سلامتی کمیٹی کا کوئی بھی رکن ماہر معاشیات نہیں‘ اس لیے وہ یہ ادراک نہ کر پائے کہ امپورٹ پر پابندی کی پالیسیاں ہمیشہ برآمدات مخالف نتائج لاتی ہیں اور ایسی پالیسیاں کبھی کسی ملک کے کام نہیں آئیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی ان کو آزمایا تھا لیکن نتیجتاً انہوں نے ہماری برآمدات میں ہی رکاوٹ ڈالی۔ ایک ہی نسخے کو بار بار آزمانے سے ایک جیسے نتائج نکلنے کا امکان ہوتا ہے۔
بھارت اور پاکستان نے آزادی کے بعد سے درآمدات کی متبادل پالیسیوں پر عمل کیا۔ بھارت زیادہ تحفظ پسند معیشت کا حامل تھا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر تک دونوں ممالک شدید تجارتی خسارے کا شکار ہونے لگے اور انہیں آئی ایم ایف کی مدد لینا پڑی۔ بدلے میں آئی ایم ایف نے دونوں ملکوں سے اپنی معیشتوں کو کھولنے پر اصرار کیا۔ دونوں ممالک نے 1990ء کے بعد سے معیشت کو فری مارکیٹ میں تبدیل اور لبرلائز کرنا شروع کیا۔ بھارت کی رفتار زیادہ اور مستقل تھی۔ 2008ء تک بھارت غیر زرعی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی کو کم کر کے 10 فیصد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کم ٹیرف کے ساتھ بھارت عالمی سطح پر اپنی معیشت کو متنوع اور بہتر طریقے سے مربوط کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ دوسری طرف پاکستان میں لبرلائزیشن کی پالیسی ہمیشہ دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے چلتی رہی۔ 1997ء سے 2002ء تک تیز رفتار لبرلائزیشن کے مختصر عرصے کے بعد پاکستان کی اشیا اور خدمات کی برآمدات میں سالانہ اوسطاً 15 فیصد کی شرح سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور ہماری برآمدات دگنی ہو گئیں؛ تاہم جب پاکستان نے 2008ء کے بعد اضافی اور ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے اپنی اصلاحات کو تبدیل کرنا شروع کیا تو اس کی برآمدات جمود کا شکار ہونا شروع ہو گئیں۔ (جاری)