پاکستان بمقابلہ بھارت:صنعت وتجارت اورزراعت …(7)

آج سے کئی دہائیاں قبل پاکستان میں مقامی صنعت بڑی کامیاب تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مقامی صنعت ہر جگہ اور ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان سے ایک تو مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور دوسرا‘ لوکل تیار کردہ مصنوعات ہمیشہ سستی ہوتی ہیں۔ چھوٹے صنعتی یونٹس ملکی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں، خصوصاً چھوٹی مقامی صنعتیں مقامی روایتی دستکاریوں کے فروغ اور تحفظ کا باعث بنتی ہیں بلکہ یہ شہروں پر دبائو کو بھی دور کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایسی بہت سی چھوٹی مقامی صنعتیں موجود ہیں جن کی سرکاری سرپرستی سے نہ صرف یہ صنعتیں ترقی کر سکتی ہیں بلکہ ملک میں بیروزگاری کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد گھریلو صنعتوں سے روزگار کما رہی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں دیہات و شہروں میں قائم قالین بافی‘ ٹیکسٹائل، ایمبرائیڈری، زیورات، ہینڈی کرافٹ، کھیلوں کے سامان کی صنعتیں ملک میں کثیر زرِمبادلہ لانے میں پیش پیش ہیں۔ اگر گھریلو صنعتوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے دیہی علاقے اس کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ اپنی ثقافتی اشیا، دست کاری کے کام کے لیے مشہور ہے، بلوچستان میں ہونے والے سلائی کڑھائی کے کام کی دنیا بھر میں بہت زیادہ طلب ہے۔ پنجاب جراحی کے آلات، کھیلوں کا سامان، مٹی کے برتن جبکہ خیبر پختونخوا دیدہ زیب اور نفیس شالوں اور عمدہ پشاوری چپلوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں لیڈیز چپل، چمڑے کے پرس، موم بتی، کھیس، چنری، کڑھائی، جیولری، بیڈ شیٹس، کھلونے، چنگیر، ہاتھ کے پنکھے اور دیگر بہت سی اشیا بڑے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔
آئیے پاکستان کی چند اہم گھریلو صنعتوں کاجائزہ لیتے ہیں۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں ایک خاص پیشے کے لوگ گھروں میں کھڈیاں لگا کر کپڑا تیار کرتے ہیں۔ کھڈی پر بننے والے اعلیٰ معیار کی سوسی، کھیس، چنری، بوسکی، کراندی، شال اور اجرک کی طلب دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے۔ سندھ اور کراچی میں بننے والے کپڑے سوسی اور اجرک کو پورے پاکستان میں بہت شوق سے پہنا جاتا ہے۔ فیصل آباد میں یہ کپڑا پاور لومز سے بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ چکنی مٹی سے بننے والے دیدہ زیب و خوب صورت برتنوں کو پاکستان سے دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے۔ گھروں میں قائم ان کارخانوں میں تیار ہونے والے کھانے کے برتن اور آرائشی ظروف دیکھنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتے ہیں۔ چکنی مٹی اور چینی کے برتن بنانے کے اہم مرا کز گجرات اور سیالکوٹ ہیں، جبکہ ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال پاکستان میں ہر جگہ بہ آسانی دستیاب ہے۔ کراچی میں لیاقت آباد کا علاقہ سٹین لیس سٹیل کی صنعت کا مرکز سمجھا جاتا ہے جہاں سٹین لیس سٹیل کے برتن، چولہے اور فاسٹ فوڈ میں استعمال ہونے والی مشینری تیار کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان کا شہر وزیر آباد برتن سازی کا گڑھ سمجھا جاتاہے۔ یہاں لوہا، تانبا، پیتل اور ایلومنیم جیسی دھاتوں سے چھوٹے پیمانے پر مختلف مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ وزیرآباد میں چاقو، چھریاں، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں سٹین لیس سٹیل کے برتن و دیگر سامانِ آرائش بڑے پیمانے پر تیار ہوتا ہے۔ ہوزری کی صنعت بھی پاکستان میں ترقی پذیر ہے۔ ملک کے ہر شہر اور دیہات میں اس صنعت کے مرا کز قائم ہیں جہاں بنیانیں، جرابیں، رومال اور سویٹر وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر تیار شدہ ہوزری کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں نسبتاً ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں گھروں میں قائم چھوٹے کارخانوں میں خواتین کے سینڈلز اور جوتوں کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ کارخانے اورنگی، کورنگی، نیو کراچی اور لانڈھی کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں اور خواتین اور مردوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صنعت ملکی ضروریات کا نمایاں حصہ پورا کر رہی ہے جبکہ یہاں بننے والے سینڈلز کو پورے ملک میں سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ اورنگی ٹائون، بھنگوریہ گوٹھ، لیاقت آباد اور نیو کراچی کے علاقے گودھرا کو گتے کے کام کے حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان علاقوں میں گھروں اور دکانوں میں قائم چھوٹے کارخانے پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے گتے کے بڑے کارٹن سے لے کر جوتے کے ڈبے بنانے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں۔ خواتین کے ملبوسات کے نت نئے ڈیزائن اور عروسی ملبوسات کی شان و شوکت دردوزی اور کاج چوبی کی صنعت سے مشروط ہے۔ یہ کام نہایت احتیاط کا متقاضی ہے کیونکہ کاریگر کی ایک معمولی سی غلطی ہزاروں‘ لاکھوں روپے مالیت کے کپڑے کو خراب کر سکتی ہے۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون کو اس کام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہاں کے تقریباً ہر تیسرے گھر میں یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔
چھوٹی صنعتوں میں قالین بافی کو اہم درجہ حاصل ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں قالین سازی کے کارخانے جا بجا قائم ہیں۔ ملک کی مجموعی برآمدات میں ان چھوٹے کارخانوں میں بننے والے قالینوں کا حصہ قابلِ قدر ہے۔ اس صنعت کے لیے سب سے اہم خام مال کپاس ہے۔ قالین بافی کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسری صنعتوں کی طرح‘ مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا رجحان بھی یہاں کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور دیہات کی طرح کراچی میں بھی چمڑے کی مصنوعات بنانے کے مرا کز قائم ہیں۔ جہاں بننے والے خوبصورت جوتے، پرس، بیلٹ اور بچوں کی جیکٹس ملکی ضروریات کو کافی حد تک پورا کرتے ہیں، جبکہ محدود پیمانے پر کچھ کارخانے اٹیچی کیس وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں۔ چمڑے سازی کی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ گھریلو طور پر قائم صنعتیں نہ صر ف ملک سے بیرروزگاری کا خاتمہ کرتی ہیں بلکہ یہ ملک میں کثیر زرِ مبادلہ بھی لاتی ہیں۔ کاٹیج انڈسٹری ایسی خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے جو کسی وجہ سے گھر سے باہر جا کر نوکری نہیں کر پاتیں۔ قالین سازی، موم بتی سازی، اور ہینڈی کرافٹ کی صنعت ایسی خواتین کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔
اس وقت پاکستانی معیشت جس سنگین بحران کاشکار ہے اس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں روزانہ کی سطح پر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس پر صرف اور صرف مقامی صنعتوں کے فروغ کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ گھریلو صنعتوں کے فروغ سے پاکستان میں روزگار کے لاتعداد مواقع پیدا ہوں گے، اس سے غربت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اور ملک کی معیشت کو وسعت حاصل ہو گی؛ چنانچہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو پاکستان میں گھریلو صنعتوں کے قیام، ان کی ترقی اور فروغ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ گھریلو صنعتوں میں چونکہ عام طور پر زیادہ تر مقامی خام مال ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ چھوٹی دستکاریوں میں سرمایہ بھی کم لگتا ہے اور ان کا دار و مدار ہنرمندی پر ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے نہ تو ڈالروں کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے بلکہ مقامی سطح پر تیار کردہ سستی مصنوعات کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد مختلف ممالک کو برآمد کرکے کثیر زرِمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان اس کی بہترین مثال ہے جو زیادہ تر چھوٹے یونٹس میں تیار ہوکر دنیا کی بڑی بڑی منڈیوں اور انٹرنیشنل برانڈز کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ آج ہم پاکستان میں قائم چند چھوٹی صنعتوں کا جائزہ پیش کیا، ان شاء اللہ آئندہ کسی کالم میں مقامی صنعتوں کے مسائل اور فروغ کیلئے اقدامات پر مفصل بات کریں گے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں