شہیدکی موت‘ قوم کی حیات …(1)

مجاہدینِ صف شکن بڑھے جو نذرِ جاں لیے
موت باادب بڑھی حیاتِ جاوداں لیے
9 مئی کے واقعات پر یوں تو پوری قوم افسردہ ہے لیکن شہدا کی تصاویر اور یادگاروں کی بے حرمتی نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ ہر محب وطن شہری غمزدہ ہے کہ جو کام آج تک ہمارے ازلی دشمن کو کرنے کی بھی جرأت نہ ہو سکی تھی‘ بلکہ کئی مواقع پر روایتی دشمن نے ہمارے قومی ہیروز (شہدا) کی بہادری کی تعریف کی اور انہیں اعلیٰ اعزازات سے نوازنے کی سفارش کی‘ وہ کام ہمارے اپنے معاشرے میں چھپے چند عناصر نے کر دکھایا۔ شہدائے وطن کے مجسموں اور یادگاروں کی جو بے حرمتی ہماری اپنی صفوں میں چھپے اندرونی دشمنوں نے کی ہے‘ وہ افواجِ پاکستان کیساتھ پوری قوم کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ یوں تو ہر واقعہ ہی دل خراش اور دل فگار ہے مگر سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ کارگل جنگ میں اپنی بہادری سے دشمن کی صفوں میں تباہی پھیلانیوالے کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کی یادگار کی توڑ پھوڑ اور یادگاری مجسمے کی بے حرمتی ہے۔ بھارتی فوج کے بریگیڈیئر ایم بی ایس باجوہ تو پہلے ہی کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی بہادری کا اعتراف اور اس کی تعریف کر چکے ہیں، اس مرتبہ بھارتی فوج کے ایک سابق میجر گورَوْ آریانے کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی تباہی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہ مجسمہ بڑی محبت سے بنایا گیا تھا۔ پیشہ ورانہ انداز میں ردِعمل دیتے ہوئے میجر گورو آریا نے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ میں پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے حق میں یا خلاف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ملک جو اپنے شہیدوں کی عزت نہیں کرتا‘ دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کیپٹن کرنل شیر خان ہمارا دشمن تھا، وہ ہمارے خلاف لڑا مگر وہ بہادر تھا۔ میجر آریا کا سوال تھا کہ اگر بھارتی فوج اسے عزت و احترام دے سکتی ہے تو تم لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ وہ تم لوگوں کے لیے قربان ہوا، کیا تم لوگ اسے بھول چکے ہو؟
شہدا کی تصاویر اور یادگاروں کی بے حرمتی ہرگز معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ہو گا اور اگر یہاں ہی اس کا تدارک نہ ہوا تو مستقبل میں مزید بھیانک نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے والے یہ عاقبت نااندیش شہدا کے درجات سے آگاہ ہی نہیں تھے ورنہ وہ کبھی ایسی جرأت نہ کرتے۔ اسی لیے سوچا کہ آج رتبۂ شہادت کے حوالے سے لکھا جائے۔ شہید کے درجات اللہ پاک کے نزدیک بہت بلند ہیں۔ سورۂ آلِ عمران کی آیات 169 تا 171 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے (مفہوم) ''اور خبردار! راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا‘ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے‘ اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں‘ (مطلب غازی) ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ (اور شہدا) اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جانا یعنی اپنی جان تک قربان کر دینا ایک ایسا بلند‘ ارفع اور اعلیٰ ہدف ہے کہ جس کی جستجو میں ایک باایمان شخص‘ جو اسلام کی نسبت، پختہ، مضبوط اور غیر متزلزل عقیدے کا حامل ہوا کرتا ہے‘ اپنے پورے سرمایۂ حیات کو دائو پر لگا دیتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اگر انبیاء کرام، آئمہ عظام اور اولیا کرام کی تاریخ کو ملاحظہ کریں تو ان پاک ہستیوں کا ہدف یعنی مطلوب و مقصود بھی منزلِ شہادت ہی دکھائی دیتا ہے۔ شہادت وہ راستہ ہے جو مختلف قسم کی مشکلات اور درد و الم کے سائے میں زندگی و حیات کو اس کا صحیح مفہوم عطا کرتا ہے۔ یہ مشکلات اور رنج و الم وہ مشکلات ہیں کہ جنہیں اللہ کے مومن بندے اس روئے زمین پر اپنے مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے برداشت کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہادت ایک ایسا راستہ ہے کہ جس پر چلتے ہوئے اللہ کے مخلص بندے اپنے نفس کو پاک اور پاکیزہ کرتے اور اسے اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ ہمیشہ ہوس اور دنیا کی ان لذتوں سے بیزاری کا اظہار کرے کہ جو انہیں اپنے معبودِ حقیقی سے اور اس کی رضا و خوشنودی سے دور رکھتی ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: شہدائے کرام جنت کے دروازے پر نہر بارق پر سبز قبہ میں ہیں اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہنچتا ہے۔ (مسند احمد، مستدرک حاکم، طبرانی)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا: یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا: یہ شہدا ہیں‘ جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) حضرت انس بن مالکؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی جنت میں داخل ہوتا ہے‘ وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیاکی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (کا معاملہ یہ ہے) کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے (راہِ خدا میں بار‘ بار شہید کیا جائے)۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، بیہقی)۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جان لو! جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ (صحیح بخاری) حضرت مسروق تابعیؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی‘ (ترجمہ:) ''اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کر دیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، انہیں رزق بھی ملتا ہے‘‘ تو انہوں نے فرمایا: ہم نے اس کے متعلق (رسول اللہﷺ سے) دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ''ان کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں ہیں، ان کی قندیلیں عرش کے ساتھ معلق ہیں، وہ جنت (کے میووں) سے جہاں سے چاہتے ہیں کھاتے ہیں، پھر انہی قندیلوں میں واپس آ جاتے ہیں، پھر ان کا رب ان کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے: کیا تم کسی چیز کی خواہش رکھتے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم کس چیز کی خواہش رکھیں، ہم جنت میں جہاں چاہیں جاتے اور وہاں سے من پسند چیزیں کھاتے ہیں، رب تعالیٰ ان سے تین مرتبہ یہی سوال فرمائے گا جب وہ دیکھیں گے کہ ان سے پوچھے بغیر انہیں نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹائی جائیں حتیٰ کہ ہم تیری راہ میں پھر شہید کر دیے جائیں، جب ان کے رب نے دیکھا کہ انہیں کوئی حاجت نہیں ہے تو پھر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو‘ اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے‘ وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہو گا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شہید کو (راہِ خدا میں) قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن دارمی) ایک مسلمان کی حقیقی و دائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کر دیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید) کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیاجائوں اور پھر شہید کیا جائوں۔ (صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح)۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں