پاکستان اس خطۂ ارض کا ایک منفرد و خوبصورت ملک ہے جہاں چاروں موسم یعنی گرما، سرما، بہار اور خزاں پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک آزمودہ بات ہے کہ جب بھی موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے تو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب لوگ گرمی سے ٹھنڈ یا سردی سے تپش کی طرف جاتے ہیں تو انہیں مختلف اقسام کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ بخار، نزلہ، زکام اور کھانسی جیسے امراض انسان کے سارے روز مرہ کے تمام امور ڈسٹرب کر دیتے ہیں، اس لیے سمجھدار لوگ بدلتے موسم کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اپنی حفاظت یقینی بناتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی موسم تو سال میں چار بار تبدیل ہوتا ہے لیکن سیاسی موسم تقریباً ہر چار سال بعد تبدیل ہوتا ہے۔ ویسے تو ہماری اسمبلیوں کی مدت پانچ سال مقرر ہے لیکن اکثر چار برس بعد ہی ہمارے ملک کا سیاسی موسم تبدیل ہونے لگتا ہے۔ سیاسی موسم کی تبدیلی کے دوران روایتی (تجربہ کار) سیاستدان ہوا کا رخ تبدیل ہونے سے قبل ہی بھانپ لیتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی وفاداریاں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ منجھے ہوئے سیاستدان اپنے سخت ترین سیاسی حریفوں کے خلاف بھی بات کرتے ہیں تو الفاظ کا چنائو خوب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں لیکن بعض جوشیلے سیاسی رہنما اپنی پارٹی قیادت کو خوش کرنے کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وطن عزیز میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مدتِ اقتدار پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوتی، یہاں حزبِ اقتدار پانچ سال بعد حزبِ اختلاف میں بدل جاتی ہے اور اپوزیشن حکومت میں آ جاتی ہے، لہٰذا جو جوشیلے سیاست دان مخالفین کے خلاف جتنی زیادہ زبان درازی کرتے ہیں، انہیں سیاسی موسم کی تبدیلی پر اتنی ہی زیادہ معافیاں بھی مانگنی پڑتی ہیں۔
2018ء کے عام انتخابات سے قبل جس طرح روزانہ سیاستدان مختلف سیاسی جماعتیں چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے اور ہر وقت وکٹیں گرنے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھیں‘ آج اسی رفتار سے لگ بھگ وہی لوگ پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ ایک سینئر صحافی دوست نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پی ٹی آئی نے دوسری پارٹیوں کی وکٹیں گرائی تھیں‘ اسی طرح اب وہ جماعتیں تحریک انصاف کی وکٹیں اکھاڑ رہی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی رہنمائوں کی اکثریت محض سیاسی وابستگی تبدیل نہیں کر رہی بلکہ پارٹی کے ساتھ ساتھ سیاست بھی چھوڑنے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رواج نیا نہیں‘ یہ قیام پاکستان سے بھی پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ یہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ہر دور میں عام رہا ہے؛ تاہم موجودہ دور میں وفاداریاں بدلنے کا معیار یکسر مختلف ہے۔ پاکستان میں سیاست دان پارٹی اس وقت چھوڑتے ہیں جب کم ازکم اگلے پانچ برس تک اقتدار میں آنے کی کوئی امید باقی نہ رہے۔ ایسے میں کسی ایسی جماعت کو جوائن کیا جاتا ہے جس کے برسرِ اقتدار آنے کا قوی امکان دکھائی دے رہا ہو۔ ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ الیکشن جیتنے والے ارکان حکومت سازی کے عمل کے دوران بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ کام ماضی میں تو مختلف ملی و قومی مقاصد کے لیے ہوتا تھا مگر اب اپنے ذاتی فائدے اور اقتدار کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جیسے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رواج عام تھا۔ 1946ء کے عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔مگر پھر وہ سب کچھ ہو گیا جس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے ایک مشہور سیاستدان ڈاکٹر محمد عالم کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلی بار ''لوٹا‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی عمل معطل رہا مگر 1957ء میں جب صدر اسکندر مرزا نے اپنی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے۔ اس وقت اس گروپ کی سربراہی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے کی جبکہ اس گروپ میں شامل دوسرے سیاستدانوں میں احمد نواز گردیزی، عبدالمجید دستی، چودھری فضل الٰہی، قاضی فضل اللہ، سید جمیل حسین رضوی، ارباب نور محمد، مخدوم زادہ حسن محمود اور کرنل عابد حسین کے نام سرفہرست تھے۔ سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا، کچھ افراد کو دولت، کچھ کو وزارتی ترغیبات اور کچھ کوحکومتی دبائو کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔ وکٹیں گرنے کا موسم ملک میں بار بار آتا رہا اور یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، محترمہ بینظیر بھٹو، نواز شریف، پرویز مشرف اور عمران خان‘ سبھی ادوار میں جاری رہا۔ مختلف ادوار میں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے کچھ سیاسی رہنمائوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کو اپنا معمول بنائے رکھا۔ ہر عہد میں کچھ ایسے کردار پائے گئے جو قومی مفاد کے نام پر عوام کی مشکلات کو بڑھانے والوں سے جا ملے۔ مسلسل وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی کہانی بڑی طویل ہے۔ کئی بار اراکینِ اسمبلی کی منڈیاں لگنے کی باتیں بھی سننے میں آئیں، سیاسی مخالفین پر ارکان کی خرید و فروخت کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جن سیاستدانوں نے بدلتے موسم کے ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل کرنا ہوتی ہیں، ان کے پاس اپنے ووٹروں کو رام کرنے کے جواز بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہر اقدام کا دفاع بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ جو لوگ مسلم لیگ (موجودہ (ن) لیگ) اور پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ جا ملے تھے اور مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک علیحدہ پارٹی بنا لی تھی‘ 2008ء میں ان میں بہت سارے اپنی اپنی پارٹیوں میں واپس آ گئے تھے۔ جبکہ (ق) لیگ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت بن گئی تھی۔ مشرف کابینہ کے کئی وزرا یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوار میں بھی وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پرویز مشرف کابینہ کے بیشتر وزرا شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ 2018ء میں ایسے سیاستدانوں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن چکی تھی کیونکہ بظاہر پہلے ہی یہ ہوا بن چکی تھی کہ کرکٹ سٹار عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی نسبت سے سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحات بکثرت استعمال ہونے لگیں اور وفاداریاں بدلنے کی بات وکٹیں گرنے سے بدل گئی۔ اُس وقت صبح و شام یہی بریکنگ نیوز چل رہی تھیں کہ پی ٹی آئی نے فلاں جماعت کی وکٹ گرا دی، کپتان نے ایک اور بڑی وکٹ گرا دی یا فلاں پارٹی کی مزید اتنی وکٹیں گر گئیں۔ اسے مکافاتِ عمل کہیں یا پاکستان کی سیاسی روایت‘ آج پھر ملک میں سیاسی وکٹیں گرنے کا موسم آیا ہوا ہے مگر اس بار وکٹیں صرف ایک ہی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف ہی کی گر رہی ہیں۔ یہ عمل اچھا ہے یا برا‘ اس بات سے قطع نظر ہم صرف اسے ملک کی ایک سیاسی روایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کہنے کو تو ایک جمہوریہ ریاست ہے لیکن ہماری جمہوریت ابھی تک مضبوط نہیں ہو سکی ہے۔ ملک کی تباہ حال معاشی صورتحال نے حالات کو مزید گمبھیر بنا رکھا ہے، مہنگائی و بیروزگاری سے لوگ اس قدر پریشان ہیں کہ عام آدمی کو اس جھمیلے سے کوئی غرض ہی نہیں۔ غریب کیلئے دو وقت کی روٹی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اسی لیے لوگ ملک کی سیاسی صورتحال میں دلچسپی ہی نہیں لے رہے۔ دوسری طرف 9 مئی کے واقعات نے افواج پاکستان اور پوری قوم کو افسردہ کرکے رکھ دیا ہے۔ شاید یہی وہ سب سے بڑی غلطی تھی جس نے ایک سیاسی جماعت کے لوگوں کو وقت سے پہلے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔