یومِ تکبیر: خطے میں طاقت کے توازن کا ضامن

28 مئی 1998ء دنیا کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے‘ یہی وہ دن ہے جب پاکستان دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ایٹمی قوت بن کر سامنے آیا تھا۔ اس دن پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدانوں نے چاغی کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ جمعرات کے دن سہ پہر تین بج کرچالیس منٹ پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے ہمسایہ ملک کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ چاغی میں ہونے والے دھماکوں کی قوت بھارت کے 43 کلو ٹن کے مقابلے میں 50 کلو ٹن تھی۔ انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998ء کو ایٹم بم تھرمو نیوکلیئر (ہائیڈروجن) اور نیوکران بموں کے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرات پیدا کر دیے تھے اور علاقے میں طاقت کا توازن بگڑنے سے بھارتی جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی، جس کا جواب دینا ضروری ہو گیا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی تجربات کو امریکہ اور مغربی ممالک کی تائید حاصل نہ تھی۔ امریکی صدر بل کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم ابوچی (Keizo Obuchi) نے پاکستان پر بھرپور دبائو ڈالا کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں ورنہ سخت اقتصادی و عالمی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف مکار بھارتی حکومت نے ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد کنٹرول لائن پر فوج جمع کرنا شروع کر دی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے کے لیے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائے جبکہ بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ بھارتی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر کے پاکستان بھیجا جائے گا۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی بھارتی سازشیں عروج پر تھیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنا اور پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات تھے۔ بھارتی سائنسدانوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ کمپری ہینسو ٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی) بھارت کے لیے نہیں کمزور ممالک کے لیے ہے مگر قدرت کوکچھ اور ہی منظورتھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنے کا جو خواب دیکھا تھا‘ بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے (1974ء) نے اسے مستحکم ارادے میں بدل کر رکھ دیا اور اس دن سے وہ پاکستان کو جوہری قوت بنانے کی راہ پر ڈالنے کی جدوجہد میں سرگرم ہو گئے۔ بھٹو نے تحدیدِ اسلحہ کے حوالے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا یا تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے‘ ہم ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنس دانوں کی معیت میں جب ایٹمی دھماکے کیے گئے تو پوری امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ پاکستانی عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ امریکہ نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر حکومت کی جانب سے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا گیا۔ دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ایک تاریخی تقریر کی اور بجا طور پر کہا کہ ہم نے بھارت کا حساب بے باق کر دیا ہے۔ بزدل دشمن اب کبھی شب خون نہیں مار سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی پابندیاں لگنے کے باوجود پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ہے‘ اگر ہم پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی ہم سرخرو ہوں گے۔
امسال یوم تکبیر کی سلور جوبلی کے موقع پر افواج پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کو جوہری طاقت بنانے والے سائنسدانوں کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پوری قوم نے یوم تکبیر کی سلور جوبلی منائی، کم سے کم قابل اعتماد ڈیٹرنس کے کامیابی سے شاندار حصول میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور اس میں قربانیاں دینے والے سرفروشوں کو یاد کیا گیا۔ یقینا اس معرکے میں کامیابی سے ہمارے خطے کی طاقت کی ڈائنامکس نے نئی شکل اختیار کی ہے، بھرپور چیلنجز کے باوجود اس کامیابی میں کارفرما شاندار دماغوں کو مسلح افواج کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کہا گیا کہ ہم ناممکن کو حقیقت بنانے والے سائنسدانوں اور انجینئرز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ترجمان پاک فضائیہ نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے ایٹمی تجربات کی سلور جوبلی کے موقع پر پاک فضائیہ پوری پاکستانی قوم کے عزم کو سلام پیش کرتی ہے۔ 28 مئی 1998ء کے دن پاکستان نے بھارت کے اشتعال انگیز ایٹمی تجربات کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے اپنی ایٹمی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ پاک فضائیہ نے اس دوران اپنے سی 130 طیاروں کے ذریعے جوہری اور حساس آلات کو ٹیسٹ سائٹ تک پہنچایا۔ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے ٹیسٹ سے قبل اور اس کے دوران مکمل فضائی سکیورٹی فراہم کی۔ اس دوران پاک فضائیہ کے لڑاکا طیارے ہائی الرٹ پر رہے جبکہ ہمارے شاہین پائلٹس دشمن کی کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے اور پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمہ تن تیار تھے۔ اس تاریخی دن کی مناسبت سے پاک فضائیہ‘ پاکستان کی فضائی سرحدوں کی حفاظت کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ اسی لگن اور عزم کے ساتھ ملک کی فضائی سرحدوں کا دفاع جاری رکھے گی۔
بلاشبہ پاکستانی قوم کسی بھی شعبے میں اہلیت، قابلیت اور جذبے میں دنیا سے کم نہیں، اس کا ثبوت ہمارے مایہ ناز سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیرقیادت کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے دے دیا جبکہ ہماری بہادر افواج نے متعدد مواقع پر دشمن کے دانت کھٹے کر کے اسے سمجھایاکہ پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑ دیاجائے گا۔ یقینا یہ بات بھارتی پائلٹ ابھینندن نے بھی اپنے ملک میں واپس قدم رکھتے ہی اپنے نام نہاد سورمائوں کو یاد کرا دی ہو گی۔ 1965ء میں پاکستانی قوم نے دنیا کو بتا دیا تھاکہ دفاع وطن کے معاملے میں ہم مکمل متحد ہیں اور پوری قوم ہر وقت‘ تمام تر اندرونی و سیاسی اختلافات کے باوجود‘ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے و مرنے کے لیے تیار ہے۔ 9 مئی 2023ء کے افسوسناک واقعات کے بعد بھی دنیا نے دیکھ لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ پاکستانی قوم اور پاک فوج کے مضبوط رشتے میں کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی پڑ سکتا ہے۔
یقینا 28 مئی 1998ء کو ان تھک محنت اور گراں قدر قربانیوں کے نتیجے میں ہم ایٹمی قوت تو بن گئے اور الحمدللہ! ہمارا دفاع بھی ناقابل تسخیر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے روایتی دشمن کو اب پاک سرزمین کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں ہو سکتی مگر یہ ہماری حتمی منزل نہیں ہے۔ اب ہمیں سنجیدگی کے ساتھ معاشی استحکام پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ ہمارا دشمن جنگی محاذ پر ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اسی لیے وہ کبھی ہمارا پانی روک کر خشک سالی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی وہی پانی چھوڑ کر سیلاب کے ذریعے ہمیں نقصان پہنچانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ہمسایہ اقتصادی لحاظ سے ہمیں پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے، لہٰذا ہمیں بحیثیت قوم اس پہلو پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ اس میں اولین ذمہ داری ہمارے حکمران، اقتصادی ماہرین اور سرمایہ کاروں کی ہے کہ وہ قوم کی صحیح رہنمائی کریں اورجس طرح ہم نے تہیہ کیا تھاکہ گھاس کھا کر گزارہ کر لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘ اسی طرح اب ہمیں کچھ عرصے کے لیے درآمدات کو مکمل طور پر روک کر اپنے ملک کے اندر پیدا اور تیار ہونے والی مصنوعات پر گزارہ کرنا ہو گا کیونکہ جب تک ہم درآمدات پر انحصار کرتے رہیں گے‘ اس وقت تک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بحال ہونا مشکل ہے۔ جس طرح 1998ء میں حکومت نے تمام تر دبائو اور مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا‘ اسی طرح ہمارے موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ اب وہ ملک کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے اسی طرح ٹھوس اقدامات کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں