اسلام،حقوقِ نسواں اورخاندانی نظام

اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک اداکارہ کے ایک چھوٹے سے بیان نے چند لمحوں کیلئے ساکت کر دیا۔ سرخی تھی ''عورت مارچ کے بعد سے خلع کی شرح بڑھی ہے‘‘۔ ایک انٹرویو دیتے ہوئے نامور ملکی اداکارہ نازش جہانگیر کا کہنا تھاکہ ''میں خود بھی فیمنسٹ ہوں لیکن میں عورت اور مرد‘ دونوں ہی کے حقوق کے حوالے سے برابری کی قائل ہوں۔ میں آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ ہر روتی عورت سچی نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں لگتا کہ سڑک پر نکل کر مارچ کرنے سے معاشرے میں عورتوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ جن عورتوں کے لیے ہم مارچ کرتے ہیں ان تک تو یہ پیغامات پہنچ ہی نہیں رہے‘ وہ تو اب بھی کسی گائوں میں‘ کونے میں لگ کر بیٹھی گھر میں صرف کھانے بنا رہی ہوں گی۔ ہمارے جو لوگ عورتوں کے نام پر مارچ کر رہے ہیں اور جن عورتوں تک اس مارچ کا پیغام پہنچ رہا ہے‘ انہیں تو پہلے ہی سے اپنے حقوق معلوم ہیں، ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے مارچ کے بعد سے خلع کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ میں قطعاً یہ نہیں کہہ رہی کہ اگر کسی لڑکی پر ظلم ہو رہا ہے تو وہ اس ظلم کو برداشت کرے لیکن رشتوں کو سمجھنا نہیں چھوڑنا چاہیے، زندگی ہمارے والدین نے بھی گزاری ہے لیکن اب تو ایسا بھی ہو رہا ہے کہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی طلاق ہو جاتی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا کہ محض اس بات پر طلاق ہو گئی کہ ساس نے کہہ دیا تھا کہ صبح دس بجے تک اٹھ جایا کرو‘‘۔
عورت کو جو عزت‘ احترام‘ آزادی‘ تحفظ اور حقوق اسلام فراہم کرتا ہے دنیا کا کوئی دوسرا مذہب یا معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ صرف خام خیالی ہی ہے کہ مغرب میں خواتین کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، یورپ اور امریکہ میں عورتوں کو بڑی آزادی حاصل ہے اور شاید وہاں خواتین کی عصمت محفوظ ہے، زمینی حقائق ان مفروضوں کے بالکل الٹ ہیں۔ مغربی دنیا کام‘ کاروبار‘ محنت و مزدوری میں عورتوں کو نہ تو کوئی رعایت دیتی ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی مراعات بلکہ خواتین ٹرک ڈرائیونگ سمیت وہ تمام سخت جان کام کرنے پر مجبور ہیں جو وطنِ عزیز میں نوے فیصد تک صرف مرد حضرات ہی کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں عورتوں کے احترام میں کوئی بس میں سیٹ بھی خالی نہیں کرتا۔ جہاں تک بات آزادیٔ نسواں کی ہے تو وہاں مادر پدر آزادی ضرور ہے مگر احترام کا درجہ بہت کمزورہے۔ پچھلے دو‘ تین سال سے ہمارے یہاں ہونے والے مارچ میں چند خواتین نے جو بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور ان پر جو نعرے درج تھے‘ ان کی دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا اور کسی بھی ملک میں وہاں کے آئین و قانون‘ رسم و رواج اور ثقافت و تمدن سے ماورا کسی اقدام کی آزادی نہیں دی جاتی۔ تحفظ کی بات کریں تو صرف اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورت کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ حقوقِ نسواں کے حوالے سے آواز اٹھانے والی اکثر تنظیموں کا ایجنڈا خاندانی نظام کو کمزور کر کے مادر پدر آزادی کے تصور کو فروغ دینا ہے۔ اگر اس بابت کسی کو شک ہو تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ مقبوضہ کشمیرکی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں نام نہاد بھارتی جمہوریت کی چھتری تلے کشمیری عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو رہی ہے‘ روہنگیا میں عورتوں کے جسمانی اعضا کو کاٹ کر آگ پر بھونا گیا لیکن نسوانی حقوق کے نام پر غیر ملکی ایجنڈا مسلط کرنے کی خواہشمند کسی تنظیم یا کسی نام نہاد حقوقِ نسواں کے ٹھیکیدار نے اُن مظلوم عورتوں کے حقوق کیلئے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ کیا کبھی کسی تنظیم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں کوئی مظاہرہ کیا ہے؟ کیا عافیہ صدیقی خاتون نہیں یا ان کے حقوق نہیں؟ مقدمے کی اصلیت اور اس پر اٹھنے والے سوالوں سے قطع نظر‘ کیا کبھی ان کے ساتھ جیل میں ہونے والی بدسلوکی پر آواز اٹھائی گئی ہے؟یہیں سے ان نام نہاد تنظیموں کا ایجنڈا واضح ہو جاتا ہے۔
نسوانی حقوق کی بات آئے تو تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتاتھا‘ انہیں جائیداد اور وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا تھا لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ نے عورت کو عزت‘ تحفظ اور حقوق دیے۔ اسلام نے عورت کو ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی سمیت دیگر خاندانی رشتوں کے تحت بہترین تحفظ اورحقوق سے نوازا۔ وطنِ عزیز میں پہلے بھی اسلامی ثقافت کو پامال کرنے کیلئے کئی حملے ہو چکے ہیں اور اب بھی حقوق کے نام پر نام نہاد مارچز سے دینی و ثقافتی اقدار پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہر سال ایسے نعرے، ایسے سلوگن اور ایسے مطالبات سامنے آتے ہیں جن کا ہماری ثقافتی و تمدنی روایات تو دور‘ دینی تعلیمات سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہزار خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کوئی غیر اسلامی یا غیر شرعی بات کبھی مقبول نہیں ہو سکتی۔
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر پہلو سے متعلق قرآن و حدیث میں مکمل رہنمائی موجود ہے جن پرعمل کرکے نہ صرف انسان اپنی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنا سکتا ہے بلکہ اس سے اُس کی آخرت بھی سنور سکتی ہے۔ اسلام نے خواتین کو حفاظت کیلئے پردے کاحکم دیا۔ عام مشاہدے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جو بچیاں یا خواتین پردہ کرتی ہیں وہ گلی محلے کے آوارہ لڑکوں کی چھیڑچھاڑ اور تنقید سے محفوظ رہتی ہیں۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے (ترجمہ): ''اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر ڈالے رہیں‘ یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہوتو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (آیتـ 59) اسی طرح سورۃ النور میں ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ): ''ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کیلئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کیلئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کیلئے ہیں‘‘۔ (آیت:26) ایک روایت میں ہے‘ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں (بیٹیاں یا تین بہنیں) ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہوگا‘‘۔ (صحیح مسلم) اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے‘‘ آپﷺ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی والی) کو ملا کر اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم)
ہمارے یہاں جب سے عورتوں کی آزادی کا مغربی ایجنڈا شروع ہوا ہے‘ تب سے اگر حقوقِ نسواں کی ٹھیکیدار تنظیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے ثابت ہوا ہو کہ انہوں نے کبھی کسی مظلوم یا مجبور حوا کی بیٹی کے حقوق کی بات کی یا خاموشی اور باعزت طریقے سے کسی مستحق غریب عورت کو امداد فراہم کی بلکہ سال بھر متعدد خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی رہیں‘ ان کے حقوق پامال ہوتے ہیں‘ کئی بیٹیاں گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں لیکن ان کے مسائل کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کسی غریب متاثرہ لڑکی کو فنڈز جمع کرنے کی مہم میں میڈیا کے سامنے پیش کرنا نہ تو سماجی خدمت ہے اور نہ ہی اس سے کسی غریب کی عزت واپس آتی ہے۔ ان کو تو یہ تک معلوم نہیں کہ پاکستانی عورت کا مسئلہ لباس نہیں بلکہ ہماری بہن اور بیٹی تو پورے لباس میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہے۔ آج کل چند مخصوص ٹی وی ڈراموں کی آڑ میں معاشرے میں خاندانی نظام کو مسائل کی جڑ بنا کر غلط رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈرامے نوجوان نسل کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی ساز اس امر پر غور کریں کہ کہیں ہمارے گھروں میں دیکھے جانے والے ڈراموں کے ذریعے ہی تو ہماری اقدار پر حملہ نہیں کیا جا رہا؟ ایسی تمام چیزیں ٹی وی ڈراموں یا فلموں کے ذریعے نشر کرنے پر سخت پابندی ہونی چاہیے کہ جو ہمارے ایک مسلم معاشرے کی بنیادی اساس کے خلاف ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں