خطبۂ حج: امت ِ مسلمہ کا اتحاد‘ وقت کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے ہمیں عیدالاضحی کی صورت میں خوشی کا ایک اور موقع عطا کیا ہے۔ سعودی عرب میں مناسکِ حج کا آغاز ہو چکا ہے اور ہر طرف لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج سعودی عرب میں یوم النحر یعنی عیدالاضحی منائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں عیدالاضحی ان شاء اللہ کل 29 جون کو ہو گی جس کے لیے پوری قوم بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے۔ کالم لکھنے کیلئے بیٹھا تو جس خبر نے سب سے زیادہ متوجہ کیا وہ خطبۂ حج تھا جس میں شیخ ڈاکٹر یوسف بن محمد سعید نے امتِ مسلمہ پر زور دیا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تمام مسلمان متحد ہو کر رہیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔ موجودہ دور میں کفار ایک بار پھر عالم اسلام کے خلاف بھرپور سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ ہر وقت مسلمانوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں، ان حالات میں امتِ مسلمہ کا اتحاد وقت کی سب سے اہم ضرورت بن چکا ہے اور اس کیلئے طاقتور مسلم ممالک کے حکمران بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔
گزشتہ روز میدانِ عرفات کی مسجد نمرہ سے شیخ ڈاکٹر یوسف بن محمد بن سعید نے خطبۂ حج دیا‘ جسے لاکھوں عازمین حج سمیت دنیا بھر میں موجود کروڑوں مسلمانوں نے ٹی وی پر براہِ راست سنا اور یہی خطبہ آج کے اخبارات کی زینت بنے گا؛ تاہم میں نے سوچا کہ خطبہ حج کے چند اہم نکات کو قارئین کے سامنے پیش کروں، کیونکہ یہی مسائل آج پوری دنیا کو درپیش ہیں اور اگر ہم خدا کی بتائی ہوئی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا و آخرت‘ دونوں سنوار سکتے ہیں۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے تفرقہ ڈالنے سے منع کیا، انسانوں کو تقویٰ اختیار کرنا چاہیے، کبھی بھی کسی معاملے پر کسی دوسرے معبود کو نہ پکارا جائے، مصیبت اور پریشانی میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے نیک اعمال کی وجہ سے ان کو ہدایت عطا کی، حاکمیت اور حقیقی حکمرانی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کی ہے، جو انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر زندگی بسر کرے، ان باتوں سے انسان کو رکنا چاہیے جن میں اللہ کی ناراضی ہے۔ وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں، اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں، ایمان والے لغویات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، ایمان والے لوگ اپنی شہوات کے پجاری نہیں بنتے، انسان کو اس وقت فضیلت ملتی ہے جب وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا بن جاتا ہے، کسی عربی کو کسی عجمی، کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت حاصل نہیں ہے، اللہ کی حدود کی حفاظت کا مطلب ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں، مسلمان کو چاہیے کہ نماز کو قائم کرے۔ بلاشبہ اگر امتِ مسلمہ متحد ہو جائے اور ہم اپنے اندر عاجزی پیدا کر لیں تو نہ صرف بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں بلکہ دنیا کی کوئی طاقت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
خطیبِ حج شیخ ڈاکٹر یوسف بن محمد بن سعید نے کہا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جو اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو ایسے معاشرے میں امن و امان قائم نہیں رہتا، بیویوں، بچوں، والدین اور ہمسایوں کے حق میں نرمی اختیار کرنی چاہیے، اللہ نے فرمایا: آپسی تنازعات کے حل کیلئے اللہ کی کتاب سے رہنمائی حاصل کرو، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور بیت اللہ شریف کے حج کا حکم اللہ نے دیا ہے، جو آدمی اتحاد اور جماعت سے علیحدہ ہو جاتا ہے تو شیطان اس پر غلبہ پا لیتا ہے۔ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، ہمیں آخرت کیلئے اپنی تیاری ابھی سے کرنی چاہیے، حشر کے دن انسان کے کام اس کے اعمال آئیں گے، جو لوگ شیطان کے پیروکار بنتے ہیں وہ ہر وقت لڑائی جھگڑے میں پڑے رہتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اخلاق قائم رکھیں، انسان صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی بندگی کرے، عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ یقینا خطبہ حج کا یہ پیغام اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور وطن عزیز کے موجودہ سخت معاشی حالات میں ان سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہماری معاشرتی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، ہمیں خصوصاً عید جیسے مواقع پر اپنے عزیز و اقارب، ہمسایوں اور متعلقین کاخصوصی خیال رکھنا چاہئے۔
خطبہ حج میں کہا گیا کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں، ہمیں اچھے کاموں کیلئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، نفرت کے بجائے محبت کے پیغام کو عام کرنا چاہیے، حاجیوں سمیت تمام مسلمانوں کو اللہ کے اطاعت کے راستوں کو اختیار کرنا چاہیے، ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس امت کو اختلافات میں نہیں پڑنا چاہیے، اللہ کا راستہ قرآن کا راستہ ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے کو لازم پکڑو، اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی صلح کروا دی جائے۔ اللہ رب العظیم نے تفرقے سے منع فرمایا ہے، قرآنِ مجید میں اتحاد کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، اتحاد میں ہی دین و دنیا کے معاملات کی فلاح ہے، مسلمانوں کا آپس میں مل کر رہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے کتاب میں اختلاف کیا وہ ہدایت سے دور ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں باہم جڑ کر رہنا چاہیے۔ مسلمانون کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اختلاف ہو جائے تو قرآن اور سنت کی طرف جائیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھیں، اچھے اخلاق سے ہی دوسروں کے دل میں جگہ پیدا ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا مقصد ہے کہ تمام مسلمان آپس میں جڑ جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ شرک نہ کرنا، والدین سے حسنِ سلوک کرو، گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرو، تقویٰ میں تعاون کرو، شیطان چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو، دین میں وہ تمام تعلیمات موجود ہیں جو مسلمانوں کو جوڑ کر رکھتی ہیں، شریعت میں حکم ہے کہ باہمی جھگڑا کرنے والوں کو سمجھایا جائے۔ ارشاد ہوتا ہے مسلمان امتِ واحدہ ہیں۔ آج کے دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی مسلم ممالک غیروں کی سازشوں کا شکار ہوکر آپس میں لڑ رہے ہیں یا سرد جنگ کا شکار ہیں۔ اگر امتِ مسلمہ صحیح معنوں میں متحد ہو جائے تو یقین کریں کہ دنیا بھر کی تمام ضروریات مسلم ممالک کی ملکیت اور تصرف میں ہیں امتِ مسلمہ کا اتحاد پوری دنیا کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ امریکہ اور چین سمیت تمام عالمی طاقتیں مسلم ورلڈ کی محتاج ہو سکتی ہیں۔ یہ خطبہ حج ویسے تو اسلامی تعلیمات کا خلاصہ قرار دیا جا سکتاہے لیکن موجودہ دور میں وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں اور ہر ممکن حد تک دوسروں کی مدد کریں۔ یہی ہماری کامیابی اور پُرسکون زندگی کی ضمانت ہو گا اور روزِ قیامت ہماری بخشش کا ذریعہ بھی بنے گا۔
میدانِ عرفات میں حج کا رکن اعظم 'وقوفِ عرفہ‘ ادا ہونے کے بعد حجاج کرام نے مسجد نمرہ سے خطبہ حج سننے کے بعد ظہر و عصر کی نمازیں یکجا کر کے ایک ساتھ ادا کیں، اذان مغرب کے بعد حجاج میدانِ عرفات سے بغیر نماز پڑھے مزدلفہ روانہ ہو گئے، جہاں انہوں نے نمازِ مغرب اور عشا یکجا کر کے ادا کیں۔ رات بھر حجاج کرام مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے عبادت اور ذکر و اذکار کرتے رہے۔ یہیں پر انہوں نے شیطانوں کو مارنے کیلئے کنکریاں جمع کی ہوں گی۔ آج نماز فجر کے بعد وہ مزدلفہ سے واپس منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ہوں گے اور اب حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کی پیروی میں رمیٔ جمرات یعنی شیطان کو کنکریاں مار رہے ہوں گے۔ جس کے بعد آج وہ قربانی کریں گے اور قربانی کے بعد بال منڈوا کر حاجی احرام اتار دیں گے۔ اب ان پر احرام کی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ اب حجاج کرام طوافِ زیارت کیلئے مسجد الحرام جائیں گے، اور خانہ کعبہ جا کر طواف کریں گے اور پھر واپس منیٰ جا کر ایام تشریق کے تین دن گزاریں گے۔ اس سال تاریخ اسلام کا سب سے بڑا حج ہو رہا ہے؛ لگ بھگ 30 لاکھ عازمین یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ اللہ پاک تمام عازمین کا حج قبول فرمائے اور ہمیں بھی خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کی زیارت نصیب فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں