دنیا میں جس طرح اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل رہاہے‘ اسی طرح دینِ اسلام کے دشمن بھی اپنی ناپاک جسارتوں میں سرگرم نظر آتے ہیں اور آزادیٔ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امتِ مسلمہ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا غصہ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ اب یورپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کا سلسلہ تیز ہونے لگا ہے۔ سویڈن کے بعد اب ڈنمارک میں بھی یہ شیطانی حرکت دہرائی گئی ہے۔ کوپن ہیگن میں عراقی سفارتخانے کے باہر ایک ملعون شخص نے قرآن حکیم کی بے ادبی کی اور کتابِ مقدس کے نسخے کو نقصان پہنچایا۔ اسلام مخالف گروپ نے اس بے حرمتی کو بغداد میں سویڈن کے سفارتخانے پر حملے کا جواب قرار دیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بے حرمتی کرنے والے گروپ نے توہینِ اسلام پر مبنی بینرز بھی اٹھا رکھے تھے اور انہیں مقامی پولیس کی جانب سے سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی دل آزاری سے انہیں روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ڈنمارک میں اس گستاخانہ اور اشتعال انگیز حرکت پر مسلم دنیا کے غم وغصے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ عراق میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور بغداد میں بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ڈنمارک کے خلاف نعرے لگائے اور گرین زون میں داخل ہو گئے۔ ادھر ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس راسموسن نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے احمقانہ اقدام قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن یا دوسری مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کا مقصد اشتعال انگیزی اور تقسیم پیدا کرنا ہے۔ دوسروں کے مذاہب کی توہین افسوسناک عمل ہے۔
ڈنمارک میں کتابِ مقدس کی بے حرمتی کے واقعے پر مسلم دنیا میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ متعدد ممالک میں ڈنمارک کے خلاف احتجاج مظاہرے ہوئے۔ ادھر ایران نے ڈنمارک کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق کوپن ہیگن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر ڈینش سفیرکو طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے عیدالاضحی کے موقع سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ملعون عراقی شخص سلوان مومیکا نے مسجد کے باہر قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔ گزشتہ دنوں دوبارہ اسی ملعون شخص نے پھر پولیس کی سخت سکیورٹی میں عراقی سفارت خانے کے باہر نہ صرف قرآن پاک کی دوبارہ بے حرمتی کی بلکہ عراقی پرچم کو بھی اپنے پائوں تلے روندا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ڈنمارک میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر قرآن مجید کی بے حرمتی کی سختی سے مذمت کی ہے اور اس افسوسناک واقعے پر ڈنمارک سے شدید احتجاج کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا اقدام آزادیٔ اظہار کے زمرے میں نہیں آتا۔ وزیر خارجہ نے چند دنوں میں دنیا بھر کے اہم رہنمائوں سے بات کی۔ دنیا بھر کے رہنمائوں کو فون کالز میں اسلاموفوبیا کے امور پر بات کی گئی۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹوزرداری نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کرکے قرآن مجید کے نسخوں کی توہین کے واقعات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف اقوامِ متحدہ کی اجتماعی کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران توہینِ مذہب اور مسلمانوں کی دل آزاری کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سویڈن اور ناروے میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی گئی اور فرانسیسی میگزین میں حضورِ اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے جس سے ہر مسلمان کے جذبات مجروح ہوئے۔ نبی اکرمﷺ کی شانِ اقدس میں توہین اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی ایسے جرائم ہیں جن کی شریعتِ اسلامیہ میں سخت ترین سزا ہے لیکن سویڈن‘ ناروے اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک میں اسلام دشمنی کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام دیا جا رہا ہے۔
گستاخانہ خاکوں اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی جیسے واقعات کی تکلیف دہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ناروے میں اکثر اسلام مخالف ریلیاں نکالی جاتی ہیں جن میں بعض اوقات مقدس کتابوں کو نذرِ آتش بھی کیا جاتا ہے‘ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں جو رواں سال پیش آیا بلکہ اس کی تکلیف دہ تاریخ گزشتہ کچھ برسوں پہ محیط ہے۔ سویڈن میں کتابِ مقدس کو جلانے کا واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا۔ مالمو میں ایک مشتعل ہجوم نے کتاب اللہ کو نذرِ آتش کردیا جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے قصدا مقدس کتاب کو جلایا جس کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکلے اور شدید احتجاج کرتے رہے۔ مظاہروں سے روکنے پر عوام نے پولیس پر مختلف چیزیں پھینکیں اور گاڑیوں کے ٹائروں کو آگ لگا دی۔ ہنگامے اتنے شدید تھے کہ پولیس کو یہ کہنا پڑا کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے جسے قابو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے اسی جگہ احتجاج کیا جہاں کتابِ مقدس کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ اس سے قبل بھی ایسے ہی دیگر تکلیف دہ واقعات پیش آئے تھے۔ ناروے کے شہر کریستیان ساند میں گزشتہ برس نومبر کے دوران ایک اسلام مخالف ریلی نکالی گئی جس کے دوران انتہا پسند گروہ نے کتابِ مقدس کو جلانے کی کوشش کی مگر الیاس عمر نامی ایک مسلمان نوجوان نے سٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے (ناروے کو مسلمان بنانا بند کرو) نامی اس مسلمان مخالف تنظیم کے رکن کو اِس مذموم کوشش سے روک دیا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس سے شائع ہونے والا جریدہ چارلی ہیبڈو عام طور پر کارٹون‘ رپورٹس اور لطائف شائع کرتا ہے۔ یہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مسیحیت اور یہودیت کے خلاف بھی متنازع مضامین شائع کرتا رہتا ہے۔ یہ جریدہ 1970ء میں شروع کیا گیا جبکہ1981ء میں ایسے ہی مضامین کی پاداش میں اسے بند کردیا گیا۔ 1992ء میں اسے دوبارہ جاری کیا گیا جس کے بعد متنازع مضامین‘ کارٹون اور رپورٹس کثرت سے شائع کی گئیں جن کی پاداش میں 2011ء اور 2015ء میں میگزین کے دفتر پر حملے بھی ہوئے۔ یہ دونوں حملے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر کیے گئے۔ پہلے حملے میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر پٹرول بم پھینکے گئے جبکہ دوسرے حملے‘ جو جنوری 2015ء میں ہوا‘ کے دوران12 افراد مارے گئے جن میں چرب نامی پبلشنگ ڈائریکٹر اور ایک بدنامِ زمانہ کارٹونسٹ بھی شامل تھا جس نے گستاخانہ خاکے بنائے تھے۔ امریکی شہر ڈیلس کے قریب 3 مئی 2015ء کے روز کانفرنس سینٹر میں ایک نمائش بھی ہوئی جس میں توہین آمیز گستاخانہ خاکے دکھائے گئے۔ یہاں دو مسلح افراد نے حملہ کردیا جنہیں پولیس نے گولی مار کر شہید کردیا‘ یہاں ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا۔ کانفرنس میں ایک مقابلہ بھی رکھا گیا تھا جس میں گستاخانہ خاکوں پر 10 ہزار ڈالر کا انعام رکھا گیا تاکہ ایسے خاکے بنانے والے لعین افراد کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور مسلمانوں کے جذبات کومزید مجروح کیا جائے۔ اس سے بھی پہلے 2006ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے جس پر دنیا بھر کے مسلمان تڑپ اٹھے تھے۔ دنیا بھر میں اس اخبار کے خلاف شدید مظاہرے کیے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ کے حکمران صرف مذمتی بیانات اور سوشل میڈیا پر پیغامات جاری کرنے کے بجائے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مشترکہ طور پر سخت ردِعمل کا اظہار کریں اور اسلام دشمنوں کو بتایا جائے کہ ہم مسلمانوں کے لیے اپنی جان‘ مال‘ والدین‘ اولاد اور عزت سے زیادہ عزیزہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی شان اور قرآن پاک کی حرمت ہے‘ اس لیے اگر دشمنانِ اسلام اپنی ناپاک جسارتوں سے باز نہ آئے تو پھر مسلم امت اس حوالے سے دوسرے طریقے اپنانے پر مجبور ہو جائے گی۔ نیز یکجا ہو کر ان ممالک کو معاشی بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے کیے کے نتائج معاشی طور پر بھگت سکیں۔