پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اَنتھک محنت اور بے مثال قربانیوں کے بعد وطن عزیز سے دہشت گردی کی لہر کو ختم کیا اور ملک میں امن و امان کو بحال کیا جس کے بعد نہ صرف سیاسی، سماجی، تجارتی و سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملا بلکہ پاک سرزمین پر انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی بھی ممکن ہوئی؛ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے مختلف کونوں کھدروں میں بچے کھچے اور چھپے ہوئے شکست خوردہ دہشت گرد اپنی بزدلانہ کارروائیوں میں کبھی پولیس اور سکیورٹی فورسز تو کبھی معصوم عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں، جن کی روک تھام کیلئے انسدادِ دہشت گردی کے ساتھ تدارکِ دہشت گردی کی مؤثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور ملک میں قیامِ امن کو بحال رکھنے کے لیے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیوں کے تدارک کیلئے پالیسیوں پر نظرثانی کرکے انہیں مزید قابل عمل بنانا ہوگا۔
پاکستان میں قیامِ امن کیلئے دہشت گردی کے تدارک اور انسدادی کارروائیوں میں حائل خلیج کی نشاندہی پہلی بار جامع فوجی آپریشنز کی کامیابی کے بعد ہوئی تھی۔ فوری خطرات کم ہونے کے بعد ریاست نے مزید ادارے قائم کیے جن کا مقصد دہشت گردی کی ان پیچیدہ بنیادی وجوہات سے نمٹنا تھا جن کے باعث ملک میں تباہی و بربادی پروان چڑھ رہی تھی۔ اب جبکہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر پھوٹ رہی ہے تو پالیسی سازوں کو بنیادی علتوں کا سدباب کرنے کے لیے تدارکِ دہشت گردی کے ضابطۂ کار کو وسیع العمل انسدادِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ مکمل ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ یہ خلیج نیشنل ایکشن پلان اور مابعد نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) میں سب سے زیادہ واضح طور پر دیکھی گئی ہے۔ آرمی پبلک سکول حملے کے بعد قائم ہونے والے نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور سٹریٹجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے خیال یہ تھا کہ پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی ملکی صلاحیت کو مضبوط کیا جائے؛ تاہم بعد ازاں نیکٹا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نظریاتی جائزے پر توجہ مرکوز رکھی اور قانون کے نفاذ اور قانونی خدمات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کر دیا۔ اگرچہ نیکٹا نظریاتی طور پر دہشت گردی اور اس کی مختلف اشکال سے نمٹنے کے لیے ایک مثالی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے لیکن اسے دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کی شکست و ریخت اور مرکزی کمان میں مسلسل تبدیلی کے باعث شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دہشت گردوں اور دیگر مجرموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ گھنائونے جرائم اور فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ‘ جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے‘ اکثر ان مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے عدالتوں پر بھی بوجھ بڑھتاہے اورقانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کام کے بوجھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد شورش کچلنے کی کامیاب کارروائیوں نے بڑے پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ساتھ ہی دہشت گردوں کے لیے امید سے بڑھ کر تخریبی کارروائیاں کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے، جس سے انسدادِ دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی طریق عمل میں ایک اور پرت کا اضافہ ہوا۔ اے پی ایس پشاور کے واقعے کے بعد تدارکِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں پر انسدادِ دہشت گردی کے ردِعمل کے نظام (میکانزم) کو ترجیح دی گئی جس میں کثیر جہتی عسکری اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ایک جامع انسدادِ دہشت گردی پالیسی تیار کی گئی، اس دوران تدارکِ دہشت گردی کی کاوشوں پر کم توجہ دی گئی۔ وقت کے ساتھ جیسے جیسے انسدادِ دہشت گردی تدارکِ دہشت گردی کے نظام کی طرف بڑھ رہا ہے تو مختلف مسائل سامنے آ رہے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوں گے، مثلاً اے پی ایس کے ردِعمل کے طور پر قائم کیے گئے الگ الگ قانونی اور تحقیقاتی نظاموں نے عملیت کو کمزور کیا۔ فوجی آپریشنز، انٹیلی جنس آپریشنز اور شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ اور سوئپنگ آپریشنز؛ ایک جامع پالیسی کے بہت سے اقدامات میں سے چند ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے داخلی نقل مقامی اور نقل مکانی کے رجحانات اور خصوصیات کی نشاندہی کے لیے نفاذِ قانون کی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف سخت جنگ لڑ رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں عدم اصلاحات اس مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں جس سے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی کامیابیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں پولیس فورس سکیورٹی برقرار رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید کا موضوع رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارکِ دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں پل کا کردار ادا کرتی ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جو پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں مفقود ہے۔ دہشت گردی، لسانیت اور فرقہ واریت، اسی طرح مختلف دہشت گرد گروپوں کو الگ الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت اور ہر ایک کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
اتوار کے روز خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں دھماکا ہوا۔ جاں بحق افراد کی تعداد اب تک 54 ہو چکی ہے۔ 90 سے زائد زخمی ہیں۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی کے مطابق حملہ آور گروپ کی شناخت ہو گئی ہے‘ ابتدائی انکوائری میں ملزمان تک پہنچ ہی چکے ہیں‘ جائے وقوعہ سے بہت سارے شواہد ملے ہیں‘ خودکش دھماکے میں 10 سے 12 کلو بارودی مواد استعمال ہوا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کا کہنا ہے کہ باجوڑ دھماکے میں زخمی افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ 38 میتیں ورثا کے حوالے کی جا چکی ہیں جبکہ آٹھ لاشیں ناقابلِ شناخت ہونے کے باعث ہسپتال میں رکھی ہیں۔ دھماکے کی ایف آئی آر نامعلوم حملہ آور کے خلاف تھانہ سی ٹی ڈی باجوڑ میں درج کر لی گئی ہے۔ ایف آئی آر ایس ایچ او خار کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس میں دہشت گردی، قتل، اقدامِ قتل اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ایس پی سی ٹی ڈی باجوڑ نے کہا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا اور شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے زخمیوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے اور جیو فینسنگ کا عمل بھی مکمل کر لیا۔ ضلع باجوڑ کے ڈی سی کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے تاہم ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے باجوڑ دھماکے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف اور نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی جمعیت علمائے اسلام کے جلسوں اور قافلوں پر خودکش حملے ہو چکے ہیں، پہلے بھی انکوائری کمیٹیاں بنیں، تحقیقات ہوئیں، ملزمان گرفتار بھی ہوتے رہے لیکن دہشت گردی کی کارروائیاں آج بھی جاری ہیں۔ چند ہفتے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے قافلے پر بھی ایک خود کش حملہ ہوا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے ساتھ تدارکِ دہشت گردی پر زمینی حقائق کے مطابق حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ دہشت گردوں کی ایسی بزدلانہ کارروائیوں اور معصوم شہریوں کی زندگی سے کھیلنے سے روکا جا سکے۔