اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، عقل و شعور سے نوازا، اچھائی اور برائی میں فرق بتایا اور پھر نیکی و بدی واضح کرتے ہوئے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنے کے لیے اسے آزاد کر دیا لیکن ساتھ ہی اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے اس کی ہدایت کا اہتمام بھی فرمایا اور صریحاً بتا دیا کہ نیکی کے راستے پر چلو گے، اچھے کام کرو گے، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو گے، امن سے رہو گے، انسان دوست بنو گے تو آخرت میں اچھے اعمال کی بنیاد پر جنت میں جائو گے اور اگر خدانخواستہ برائی کی ڈگر پر چل نکلے، برے کام کرو گے، دوسروں کی زندگیاں اجیرن کرو گے، لوگوں کیلئے مشکلات پیدا کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ اللہ پاک نے انسان کی اصلاح کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ تک بے شمار نبی، رسول، پیغمبر اور ہادی بھیجے جنہوں نے نیکی اور بھلائی کا درس دیا۔ تمام انبیاء کرام نے سب سے پہلے پیار، محبت اور انسانیت کی تبلیغ کی اور پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا۔ اسلام سراسر انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے اور انسانی رشتوں کی اہمیت اجاگر کرتا ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ا اربوں میں ہے اور اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت نیک، صالح اور پُرامن ہے، وہیں کچھ ایسی کالی بھیڑیں بھی ہیں جو اپنے افعال کی بدولت امتِ مسلمہ کی بدنامی کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ اگلے جہان میں نیکی اور بدی کا حساب کتاب تو ہوگا ہی اور جزا و سزا بھی ملے گی لیکن اس دنیا میں بھی اچھے لوگوں کو عزت، احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ برے کو قابلِ نفرت سمجھا جاتاہے، برائی اور فساد برپا کرنے والے کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں کرتا اور ہر کوئی اس سے نفرت کرتاہے۔ ہر دور میں جہاں اچھے لوگ اپنے نیک اعمال، شرافت، اخلاق، ہمدردی، ایمانداری، دیانت داری، سچائی اور انسانیت دوستی کی وجہ سے اپنے معاشرے اور ملک و ملت کے لیے نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، وہیں بعض عاقبت نااندیش، بدچلن، فسادی، سماج دشمن اور انتہا پسند قسم کے افراد اپنے غلط افعال کی وجہ سے معاشرے کے لیے مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچاتے اور فساد برپا کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں برے لوگ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں لیکن آگ کی ایک چنگاری بھی پورے کھیت یا جنگل کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسے عاقبت نااندیش کبھی مذہب کی آڑ میں اور کبھی کسی دوسرے بہانے سے معاشرے کا امن و امان خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر اس گروہ، قبیلے، قوم یا ملک کے لوگ باشعور ہوں، وہاں کی قیادت انسانیت کے تقاضوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتی ہو تو ان مٹھی بھر لوگوں کو ریاست کا امن و امان تباہ کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب حکمران اور عوام‘ دونوں باعمل ہوں اور دینی تعلیمات کا بھی بہتر فہم رکھتے ہوں۔
وطن عزیز میں مختلف ادوار میں سیاسی حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کبھی ایک سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے تو کبھی وہ اپوزیشن بنچوں پہ بیٹھتی ہے لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ملک کے تمام طبقات بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے یکسو ہیں اور ہمارا آئین بھی انہیں تمام حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود بعض اوقات چند شرپسند دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر معاشرے کا امن و سکون تباہ کرنے کی ناکام سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں کئی بار گرجا گھروں اور مندروں پر حملے ہوئے، اقلیتی برادری کے گھر نذرِ آتش کیے گئے اور فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب بنیادی دینی تعلیمات سے سراسر انحراف کے مترادف ہے۔ رسول کریمﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا تو اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ اگر عیسائی معاہدے پر کاربند رہے تو بدلے میں '' ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی‘‘ (سنن ابودائود: 3041) ایسی واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود مٹھی بھر لوگ مذہب کی خود ساختہ تعبیرات کے نام پر اقلیتوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کی جب بے لاگ تحقیقات ہوئیں تو بیشتر نفرت انگیز واقعات کے پیچھے ہمسایہ ملک بھارت یا دیگر اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ نکلا جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذہبی منافرت کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ حالیہ سانحہ جڑانوالہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: جس نے میری امت پر خروج کیا، اس کے نیک اور برے کو قتل کیا، نہ مومن کا لحاظ کیا، نہ کسی ذمی (اقلیتی فرد) کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کیا، وہ میرے دین پر نہیں۔ (صحیح مسلم: 4788)۔
دنیا آج بھی بہترین طرزِ حکمرانی اور عدل وانصاف کے حوالے سے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دور کی مثال دیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق ؓ رات کو اٹھ کر گلیوں میں گشت کیاکرتے تھے تاکہ اگر کوئی ضروت مند ہو تو اس کی مدد کرسکیں ۔حضرت عمر فاروقؓ کے خادم اسلمؓ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حرۂ واقم کی طرف نکلے حتیٰ کہ ہم جب صرار (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ آگ جل رہی ہے تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: رات اور سردی کی وجہ سے وہ لوگ عاجز اور بے بس معلوم ہوتے ہیں، آؤ (ان کے پاس) چلیں۔ ہم دوڑتے ہوئے گئے اور ان کے قریب پہنچ گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں اور آگ پر ہنڈیا چڑھائی ہوئی ہے۔ امیر المومنین نے اسے سلام کیا اور پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ اس عورت نے کہا: رات ہو چکی ہے اور سردی بھی ہے۔ پوچھا: یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ اس عورت نے جواب دیا: بھوک کی وجہ سے۔ پوچھا: ہانڈی میں کیا چیز (پک رہی) ہے؟ اس عورت نے کہا: اس میں وہ ہے جس کے ساتھ میں ان بچوں کو بہلا رہی ہوں تاکہ وہ سو جائیں، ہمارے اور عمر کے درمیان اللہ ہے۔ اس پر امیر المومنین نے فرمایا: عمر کو تمہارے بارے میں کیا پتا؟ اس عورت نے کہا: عمر ہمارا حاکم ہے اور پھر ہم سے غافل رہتا ہے؟ اس پر امیر المومنین نے مجھے فرمایا: چلو ہمارے ساتھ! پھر ہم بھاگتے ہوئے اس جگہ گئے جہاں آٹے کا گودام تھا۔ حضرت عمرؓ نے آٹے کی ایک بوری اور چربی (آئل) کا ایک ڈبہ نکالا اور کہا: یہ مجھ پر لاد دو۔ میں نے کہا: آپ کے بجائے میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا:کیا تو قیامت کے دن میرا وزن اٹھائے گا؟ لہٰذا میں نے یہ وزن آپؓ پر لاد دیا اور آپ کے ساتھ چلا، آپ بھاگے بھاگے جا رہے تھے۔آپؓ نے یہ سامان اس عورت کے سامنے ڈال دیا اور تھوڑا سا آٹا نکال کر کہا: میں اسے صاف کرتا ہوں، تم میرے ساتھ تعاون کرو۔ وہ ہانڈی کے نیچے پھونکیں (بھی) مار رہے تھے۔پھر کھانا پکنے کے بعد ان سب نے سیر ہو کر کھا لیا اور کچھ کھانا باقی بچ گیا۔اب ہم اٹھ بیٹھے، وہ عورت کہہ رہی تھی: اللہ تجھے جزائے خیر دے‘ عمر کے بجائے تمہیں صاحبِ اقتدار ہونا چاہئے تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہنا اور وہاں مجھ سے بات کرنا، ان شاء اللہ۔ پھر آپ پیچھے ہٹ گئے ا ور زانوئوں کے بل بیٹھ گئے۔ اسلمؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نے بچوں کو اچھلتے کودتے اور کھیلتے ہوئے دیکھا اور بعد میں وہ سو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اسلم! بھوک نے ان کی نیند ختم کر رکھی تھی اور انہیں رُلا دیا تھا لہٰذا میں نے یہ دیکھنا پسند کیا جو میں نے دیکھ لیا ہے‘‘۔ (تاریخ ابن جریر، فضائل صحابہ، ج: 1، ح: 382، وسندہٗ حسن) یہاں ایک بات واضح ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اس مسافر خاتون اور اس کے بچوں سے ان کا مذہب نہیں پوچھا بلکہ محض انسانیت کے ناتے ان کی مدد فرمائی۔ ہمارا مذہب اسلام سب سے پہلے ہمیں انسانیت کی فلاح وبہبود کا درس دیتا ہے۔ ایک اچھا انسان ہی ایک بہترین مسلمان بن سکتا ہے۔