صدرِ پاکستان وفاق کے سربراہ ہیں، پارلیمانی نظام میں صدرِ مملکت کا عہدہ غیر انتظامی ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کی رائے پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے؛ تاہم پاکستان میں مارشل لا حکومتوں کے ادوار میں اکثر یہ عہدہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے پاس رہا، جہاں وہ وزیراعظم کے انتظامی اختیارات بھی اپنے پاس رکھتے تھے خواہ بعد میں ان کا اپنا مقرر کردہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوتا، اس کی سب سے بڑی مثال پرویز مشرف ہیں۔ پارلیمانی نظام میں صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر وفاق کی نمائندگی کرے اور صدر نامزد ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں سے غیر وابستہ ہو جائے۔ مثال کے طور پر نامزدگی کے بعد فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے تھے مگر دوسری طرف آصف علی زرداری صدر ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین رہے۔ موجودہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق ایک سیاسی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف سے ہے ، جب تک ملک میں ان کی پارٹی برسراقتدار رہی تو ان کا عہدہ محض علامتی رہا کیونکہ ان کے پارٹی چیئرمین اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے لیکن جب سے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے‘ اس کے بعد مختلف اہم امور پر صدرِ مملکت اور وفاقی حکومت میں اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل تو اس بات کی سمجھ آتی تھی کہ وفاق میں جن سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت تھی وہ سب تحریک انصاف کی حریف جماعتیں تھیں بلکہ وہ جماعتیں‘ جو ماضی قریب تک پی ٹی آئی کی اتحادی تھیں اور حکومتی اتحاد میں شریک تھیں‘ وہ بھی تحریک عدم اعتماد کے بعد سے مدمقابل آچکی تھیں‘ اسی وجہ سے دونوں جانب ایک تنائو کی سی کیفیت جاری رہتی تھی مگر اب قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے اور ملک میں ایک غیر سیاسی نگران حکومت برسراقتدار ہے، لہٰذا اب یہی توقع تھی کہ اس غیر سیاسی حکومت اور صدرِ مملکت کے مابین بہتر ہم آہنگی قائم ہو گی۔ لیکن اچانک گزشتہ روز صدرِ مملکت کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ایسا بیان سامنے آیا جس نے ملک میں بھونچال برپا کر دیا اور جس سے ایک نئی آئینی و قانونی بحث چھڑ گئی ہے۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کی ہے۔ ٹویٹر (ایکس) پر جاری کیے گئے بیان میں صدر نے کہا ہے کہ ''اللہ گواہ ہے میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔ میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں، میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا، اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شاء اللہ معاف کر دے گا، میں ان سب سے معافی مانگتا ہوں جو ان بلز سے متاثر ہوں گے‘‘۔ قبل ازیں خبر آئی تھی کہ صدرِ مملکت نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق آرمی ایکٹ 31 جولائی 2023ء کو مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا اور یہ بل صدر کو توثیق کے لیے یکم اگست کو ارسال کیا گیا تھا۔ گزشتہ قومی اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری دی تھی۔ سائفر گمشدگی کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت دیگر رہنمائوں کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ سیکرٹری داخلہ کی مدعیت میں سنگین آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ء کی دفعہ 5، 9 پی پی سی سیکشن 34 کے تحت درج کیا گیا،مگر اب صدرِ مملکت کے بیان نے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
سربراہِ مملکت کے حیثیت سے ڈاکٹر عارف علوی کا بیان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، اس کی حقیقت شاید فوری طورپر تو سامنے نہ آ سکے؛ تاہم جلد ہی یہ معاملہ واضح ہو جائے گا۔ اس آئینی و قانونی مسئلے پر وفاقی وزارت قانون و انصاف کا موقف بھی سامنے آیا ہے۔ وزارتِ قانون نے صدر کے حالیہ بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق کوئی بھی بل منظوری کے لیے صدر کو بھیجا جاتا ہے، جس کے لیے صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں؛ منظوری دیں یا مخصوص مشاہدات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں۔ آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا، موجودہ کیس میں صدر نے آرٹیکل 75 کی آئینی ضروریات پوری نہیں کیں، انہوں نے جان بوجھ کر بلز کی منظوری میں تاخیر کی۔ بلوں کو بغیر مشاہدے یا منظوری واپس کرنے کا راستہ آئین میں نہیں دیا گیا، یہ اقدام آئین کی روح کے منافی ہے، صدر کے پاس بلز واپس کرنے کا طریقہ تھا تو اپنے مشاہدات کے ساتھ واپس کر سکتے تھے‘ جیسے ماضی قریب میں بل واپس بھجوائے گئے تھے‘ ویسے ہی یہ بھی بھجوا سکتے تھے، علاوہ ازیں بل واپس کرنے سے متعلق پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے، تشویشناک بات یہ ہے کہ صدر نے اپنے ہی عہدیداروں کو بدنام کرنے کا انتخاب کیا، ان کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینا چاہیے۔ پی ڈی ایم جماعتوں کے سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بھی صدر مملکت کے بیان پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ ایک سابق لیگی وزیر نے کہا ہے کہ یہ بات ناقابل یقین ہے، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ صدر مستعفی ہوں‘ وہ مؤثر انداز میں دفتری کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک لیگی سینیٹر کا کہنا ہے کہ صدر علوی کھل کر بات کریں، اگر انہیں بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات ان پر درج نہ کیے؟ بل ہاں یا ناں کے بغیر واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ میڈیا پر خبریں آنے پر بھی وہ دو دن تک کیوں چپ رہے؟ ڈاکٹر عارف علوی بولے بھی تو معاملہ مزید الجھا دیا، اگر ان کا سٹاف ان کے بس میں نہیں تو بہتر ہو گا کہ وہ مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں۔ ایک اور سابق وفاقی وزیر نے ڈاکٹر علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں ان کی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر مملکت کی یہ وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے، اگر ایسا ہے تو صدر کو اس عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے، اگر ان کا عملہ ان کے کہنے میں نہیں تو انہیں صدارتی منصب چھوڑ دینا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشاق احمد نے اس معاملے پر کہا ہے کہ یہ تو ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے، اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے صدرِ مملکت نے کہا ہے تو یہ ریاست، پارلیمنٹ، قانون سازی کے ساتھ ساتھ 24 کروڑ عوام کی بھی توہین ہے، معاملات ایک بار پھر عدالت میں جائیں گے۔ ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے اس حال سے ملک کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم فرمائے۔ پی ٹی آئی کے وکلا نے بھی اس حوالے سے گزشتہ روز پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے سپریم کورٹ سے سوموٹو لینے کی استدعا کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ عدالت لے جانے کا اعلان بھی کیا۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب گزشتہ روز جب آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر صدرِ مملکت کے دستخط کی خبر سامنے آئی تو ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن جب سائفر گمشدگی کا مقدمہ درج ہوا اور پھر ایک پی ٹی آئی رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو اچانک صدر کا بیان سامنے آ گیا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہرحال یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ ریاست کے ایک اہم آئینی عہدیدار کا بیان ہے اور ایک گنجلک آئینی وقانونی معاملہ ہے جس کے حقائق جلد ازجلدسامنے آنے چاہئیں ۔