رواں برس کے آغاز پر ایک کالم میں لکھا تھا کہ اب وہ دور نہیں رہا کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا تھا تو عوام تنگ آکر سڑکوں پر نکل آتے تھے، بھرپور احتجاجی مظاہرے کرتے تھے، تاجر برادری شٹر ڈائون کرتی تھی اور ٹرانسپورٹ مالکان ملک بھر میں پہیہ جام کر دیتے تھے، وکلا بھی ہڑتال کرتے تھے اور سٹوڈنٹس بھی کلاسوں کا بائیکاٹ شروع کر دیتے تھے، یوں ملک بھر میں کاروبارِ زندگی عارضی طور پر معطل ہو جاتا تھا جس سے حکومتی و انتظامی مشینری پر دبائو پڑتا تھا۔ پھر مظاہرین و ہڑتالی کارکنوں سے مذاکرات کیے جاتے تھے، ان کے مطالبات سنے جاتے تھے، جائز مطالبات حکام بالا تک پہنچائے جاتے تھے اور پھر ان مطالبات کی جلد تکمیل اور مسائل کے جلد حل کی یقین دہانی کرائی جاتی تھی جس پر احتجاج بھی ختم ہو جاتا تھا اور عوام کی شنوائی بھی ہو جاتی تھی۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر کوئی سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی خبر چلا دے کہ آج رات پٹرول اور ڈیزل اتنے مہنگے ہو رہے ہیں تو لوگ احتجاج کرنے کے بجائے فوراً پٹرول پمپوں کا رخ کریں گے تاکہ پٹرولیم مصنوعات کے مہنگا ہونے سے قبل ہی فیول ٹینک بھروا لیں اورکم ازکم چند دن تو مہنگے پٹرول سے بچ جائیں۔ اب نہ کوئی احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلتا ہے، نہ تاجر دکانیں بند کرتے ہیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹرز اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں، یعنی حکومت جتنی مرضی مہنگائی کر لے‘ شہریوں کوصرف اس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ نئے نرخ نامے کے اطلاق سے پہلے پہلے خریداری کر لیں۔ لیکن نگران و پی ڈی ایم حکومت نے مہنگائی کے پے درپے وار سے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ اب پھر وہ وقت آ گیا ہے کہ لوگ بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث سراپا احتجاج ہیں۔ عام آدمی کے لیے یوٹیلیٹی بلز جمع کرانا اب ممکن نہیں رہا، کیونکہ دو پنکھوں اور ایک فریج والے چھوٹے سے گھر کا بل بھی 20 سے 30 ہزار روپے آ رہا ہے۔ ایسے گھرانوں کی اوسط ماہانہ آمدن بھی بلوں سے کم ہے۔ اپنی ماہانہ آمدن میں سے سب سے پہلے مکان کا کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے‘ پھر دو وقت کی روٹی کے لیے راشن خریدنا ہوتا ہے‘ بچوں کی سکول، کالج اور یونیورسٹی کی فیس ادا کرنا ہوتی ہے اور پھر بجلی، گیس اور پانی کے یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اسی پر بس نہیں‘ روزانہ دکان، دفتر وغیرہ جانے کے لیے کرایہ یا موٹر سائیکل کے پٹرول کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر گھر کا سربراہ اپنی ساری تنخواہ سے بجلی کا ایک بل بھی جمع نہ کرا پائے اور باقی ادائیگیاں بھی سر پر ہوں تو اس سے زیادہ سنگین صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں کیونکہ اب متوسط اور غریب افراد کے پاس بیچنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ ادھار کے لیے گروی رکھنے کوکوئی چیز باقی نہیں رہی۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ وہ پہلا ادھار واپس کریں گے تو ہی مزید مل سکے گا، مگر ہر ماہ بڑھتے بل انہیں نیچے سے نیچے دھکیل رہے ہیں اور کوئی بچت ان کے کسی کام نہیں آ رہی۔
ابھی عوام بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بوجھ ہی اٹھا نہ پائے تھے کہ نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت امریکی ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک دوڑ چل رہی ہے، کبھی ڈالر اوپر جاتا ہے تو کبھی پٹرول کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب یہ کہا جاتا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ڈالر اور پٹرول‘ دونوں کو 300 روپے تک لے جائے گی تو سن کر ہول اٹھتا تھا اور یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے مگر اب تو حد پار ہو گئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ٹرپل سنچری مکمل کرنے کے بعد بھی سرپٹ بھاگتے چلے جا رہے ہیں اور 305 کا ہندسہ بھی کراس کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا تو محال کیا ہی ہے‘ سب سے زیادہ متاثر سفید پوش طبقہ ہو رہا ہے کیونکہ غریب آدمی تو سب کی نظروں میں ہوتا ہے، لوگ اس کی مدد بھی کر دیتے ہیں اور وہ خود بھی حالات کے مطابق گزارہ کرنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے، جبکہ سفید پوش آدمی آج کل حالات سے سخت پریشان ہے، نہ تو وہ کسی سے ادھار مانگ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔ اسے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے صاف ستھرے کپڑے بھی پہننا پڑتے ہیں اور خالی پیٹ ہونے کے باوجود چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بھی سجا کر رکھنا پڑتی ہے۔
ملک میں مسلسل بڑھتی مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ رواں ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات، ایل پی جی، دودھ، سونا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ایک نظر ڈال لیں تو اندازہ ہو جائے گاکہ مہنگائی کا جن کس قدر بے قابو ہو چکا ہے۔ یکم ستمبر کو حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا گیا، مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے ستائے عوام پر نگران حکومت کا 17 دنوں میں یہ دوسرا پٹرول بم تھا۔ رات گئے وزارتِ خزانہ کی جاری کردہ سمری کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 14 روپے 91 پیسے کا اضافہ کیا گیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 305 روپے 36 پیسے ہو گئی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل 18 روپے 44 پیسے مہنگا کیا گیا جس کے بعد اس کی قیمت 311 روپے 84 پیسے ہو گئی۔ قبل ازیں 15 اگست کو پٹرول کی قیمت میں 17 روپے 50 پیسے فی لٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا تھا۔ نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے کا اپنا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ اس وقت ایک طرف پٹرول اور ڈیزل ناقابلِ رسائی ہو چکے ہیں اور دوسری طرف اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی پرواز کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری روز اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی کی قیمت میں 4 روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر 330 روپے پر ٹریڈ ہوا۔ انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی دیکھی گئی اور 4 پیسے کی کمی کے بعد ڈالر 305 روپے 50 پیسے پر ٹریڈ ہوا۔ درآمدات کا تعلق چونکہ امریکی ڈالروں سے ہوتا ہے‘ لہٰذا عوام ڈالر کی قیمت بڑھنے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں، دوسری طرف حکومتیں یہ جانتی ہیں کہ بالواسطہ ٹیکس کی وصولی کا سب سے آسان اور تیز ذریعہ پٹرولیم مصنوعات ہیں کیونکہ پہیہ تو بہرحال چلنا ہی ہے اور اسے چلانے کے لیے پٹرول‘ ڈیزل ناگزیر ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں دوڑ مسلسل جاری ہے اور دونوں کے نرخ ہر نفسیاتی حد پار کر چکے ہیں جس کے باعث عوام کی قوتِ برداشت مکمل طور پر جواب دے چکی ہے۔
مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ غریب عوام پہلے ہی خودکشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں مختلف ہیلپ لائنز پر ایسی ٹیلی فون کالز بھی موصول ہوئیں کہ جن میں بچوں کی بھوک سے مجبور والدین نے ایک وقت کے کھانے کی اپیل کی۔ یہ انتہائی غیر معمولی حالات ہیں۔ ایک سفید پوش کے لیے دو‘ چار روٹیوں کیلئے ہیلپ لائن پر کال کرنا بے بسی کی انتہا ہے۔ یہ تو وہ سٹیج ہوتی ہے جب انسان مجبور ہو کر چوری، ڈکیتی یا پھر خدانخواستہ خودکشی کی بابت سوچ رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اسے راہِ راست پر لانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے لیکن ساتھ ہی عوامی مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ اشیائے ضروریہ پر ٹیکس چھوٹ دی جائے۔ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اتنا ہی اضافہ کیا جائے جس کا بوجھ عوام اٹھا سکیں۔ اس وقت ایک لٹر پٹرول پر لگ بھگ 77 روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں۔ کیا دنیا کا کوئی قانون فاقہ کش غریب پر اس قدر ٹیکسز کی اجازت دیتا ہے؟ بڑی گاڑیوں، میک اَپ کے سامان، سگریٹ اور تمباکو مصنوعات جیسی اشیا پر ٹیکسز کی شرح بھلے دو‘ تین گنا تک بڑھا دی جائے کہ ان کا اثر عام آدمی پر کم ہی پڑتا ہے مگر غریب کا کچھ احساس کیا جائے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کی مشکلات کا بروقت ازالہ نہ کیا اور پٹرول اور ڈالر کی ریس یونہی چلتی رہی تو بہت جلد وہ وقت آ جائے گا جب عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے گا۔ ایسے میں سڑکوں پر جاری احتجاج کسی خوفناک تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے‘ اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور غریبوں کے منہ سے نوالا مت چھینیں۔