6 ستمبر کا دن پاکستانی قوم کے لیے ایک قابلِ فخر قومی دن ہے۔ یہ ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایک انتہائی یادگار دن ہے جب ہم سے لگ بھگ چھ گنا بڑے ملک (بھارت) نے افرادی تعداد کی برتری اور زیادہ دفاعی وسائل کے نشے میں چور ہوکر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ کر دیا تھا مگر غیور اور متحد پاکستانی قوم نے اپنے دشمن کے جنگی حملے کا اس بہادری اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جارحیت کرنے والے بڑے ملک انڈیا کی فوج کو غیور پاکستانی فورسز نے ناکوں چنے چبوا دیے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے دنیا پر واضح کر دیا کہ جنگیں صرف مہلک ہتھیاروں اور بڑی فوجوں سے نہیں بلکہ قومی اتحاد، عزم و استقلال اور جذبے کے ساتھ جیتی جاتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی حب الوطنی اور مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور جانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے مل کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
6 ستمبر 1965ء کو رات کے اندھیرے میں بزدل بھاتی فوج کا حملہ دراصل پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین، دوقومی نظریہ، قومی اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا جسے جری قوم نے کمال وقار اور بے مثال جذبۂ حریت سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس امتحان میں اپنی ثابت قدمی اور فتح کو بھی یقینی بنایا۔ سترہ روزہ اس جنگ میں لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے پوری پاکستانی قوم نے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اسے دشمن کا سامنا کرنا اور اس کے مقابل کامیابی حاصل کرنا ہے۔ جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقتوں پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کے حملے کو پسپا کر کے اسے شکست دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔ پوری قوم نے اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، شہری دفاع کے رضاکار، مزدور، کسان اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت ہر کسی کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ 'اے مرد مجاہد جاگ ذرا! اب وقت شہادت ہے آیا‘۔
وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط دشمن کے مقابلے میں پاکستان نے صرف اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو شکست فاش دی۔ بھارت اور پاکستان کی مشترکہ سرحد رن آف کچھ پر طے شدہ قضیے کو ہندوستان نے بلاجواز زندہ کیا‘ فوجی تصادم کے نتیجے میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا، اس کے باوجود پاکستان نے بھارت سے ملحق سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کیے۔ صرف اپنی مسلح افواج کو معمول سے زیادہ الرٹ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کو اندھیرے میں جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو آناً فاناً پوری قوم، فوجی جوان و افسر، سرکاری ملازمین اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ فوری جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے قوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر ایوب خان کے اس جملے کہ ''پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ نے پوری قوم میں ایک نیا ولولہ بڑھ دیا تھا۔ پاک فوج نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں بلکہ انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی لاہور کے جم خانہ میں شام کو محفل سجانے کا خواب میجر عزیز بھٹی شہید جیسے سپوتوں نے چکنا چور کر دیا۔ چونڈہ کے سیکٹر (بھارت کا پسندیدہ اور اہم محاذ) کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارود سے نہیں‘ اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ پاکستان کے محدود عسکری وسائل کے باوجود بھارت کے اس سطح کے نقصان اور اس کی تباہی کو دیکھ کر بیرونی دنیا بھی افواجِ پاکستان کی تعریف اور حکمت عملی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ پاکستانی عوام نے بھی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور دشمن کو بتا دیا کہ اس قوم کے جذبۂ شہادت کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔
ستمبر 1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلانِ جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔ پاکستان کے بحری، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامانِ تجارت لانے اور لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر ہی نہ آنے دیا گیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہے بھارت کے تجارتی جہاز سرسوتی اور دیگر کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست و زیر تحویل کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7 ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی‘ بھارت کے ساحلی مستقر دوارکا پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ دوارکا قلعہ پر نصب ریڈار پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20 منٹ تک اس دوارکا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوارکا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف بھارت کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ بھارتی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کر سکا۔ بھارتی جہاز تلوار کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی غازی کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا باز ''گھوڑوں‘‘ کو تیار کر رکھا تھا جیسا کہ مسلمانوں کو دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔ ہمارے ہوا باز 7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علا الد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے بھارت کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ہلواڑا بنا دیا۔ پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ وہ فرمان قائد اعظم کے مطابقSecond to None ہے۔
1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اور خونخوار شکار کو پاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا، اور یہ سب بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بتائے گئے اصول (ایمان، اتحاد، تنظیم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔ کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ ہر طرح کے فرق اور اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا عملی مظاہرہ تھا۔ آج وطن عزیز پاکستان جن حالات سے دوچار ہے‘ ان سے نمٹنے کے لیے بھی ہمیں 6 ستمبر 1965ء جیسے جذبے اور اتحاد کی ضرورت ہے۔