عام انتخابات‘ افواہیں اور غیر یقینی کی صورتحال

پاکستان میں اس وقت وفاق اور چاروں صوبوں یعنی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہیں اور سبھی جگہ نگران حکومتیں برسر اقتدار ہیں۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں جنوری میں جبکہ قومی اسمبلی اور سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں اگست میں آئینی مدت کے مکمل ہونے پر تحلیل ہوئیں۔ عام طور پر نگران سیٹ اپ کا مقصد صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتاہے۔ جنرل الیکشن میں حکومتِ وقت کی جانب سے کسی قسم کی دھاندلی یا اپنی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت روکنے اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے یکساں مواقع مل سکیں اور کسی بھی جماعت کو کوئی خاص سہولت نہ ملے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ایڈوائس پر 9 اگست 2023ء کو قومی اسمبلی تحلیل کی تھی جس کے بعد آئین کے مطابق تین ماہ کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جانا ہے؛ تاہم ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول ہی جاری نہیں کیا گیا اور ایک عام تاثر یہی ہے کہ شاید مارچ‘ اپریل 2024ء سے قبل جنرل الیکشن کا انعقاد مشکل ہے۔
عام انتخابات کی اہمیت اور ان کے انعقاد سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی ابھی تک کسی بھی ادارے یا شخصیت کی جانب سے ایسا کوئی بیان یا کوئی خواہش سامنے آئی ہے جس میں جنرل الیکشن کے انعقاد یا ان کی آئینی حیثیت و اہمیت کو رَد کیا گیا ہو لیکن ابھی تک اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی خبر مارکیٹ میں زیرگردش رہتی ہے۔ اتحادی حکومت جب تک برسر اقتدار تھی تو وزرا کے بیانات ہمیشہ الیکشن میں تاخیر سے متعلق ہی سننے کو ملتے تھے اور ان بیانات کے ساتھ متعدد جواز بھی پیش کیے جاتے تھے مگر اب اقتدار سے جانے کے بعد اتحادی حکومت میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے عام انتخابات کے نوے دن میں انعقاد سے متعلق بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ چند روز قبل خبر آئی کہ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات جنوری 2024 ء کے آخری عشرے میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کا مجوزہ شیڈول تیار کر لیا ہے اور آئندہ عام انتخابات جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 27 سے 30 جنوری 2024 ء کی تاریخیں پولنگ ڈے کیلئے تجویز کی ہیں۔ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ عام انتخابات 28 جنوری 2024 ء کو کرائے جانے کا امکان ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن کی منظوری کے بعد ہی عام انتخابات کا شیڈول جاری ہو گا۔ تاہم اس خبر کی ابھی تک مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اور یہ فی الوقت تک ایک غیر مصدقہ خبر ہے۔
مارکیٹ میں زیر گردش ایک خبر یہ ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کسی بھی وقت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ صدرِ مملکت کی وزیر قانون سے ملاقات میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان پر بات ہوئی ہے۔ قبل ازیں صدر کے مراسلے کے جواب میں وزارتِ قانون نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے خط لکھا ہے۔ اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ''آئین کا آرٹیکل 48(5) قومی اسمبلی توڑنے کی صورت میں صدر کو انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کے اندر تاریخ کے تعین کا پابند بناتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے متعدد فیصلوں میں آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کر چکی ہے، لہٰذا انتخابات کی تاریخ کا تعین صدر کا استحقاق اور اہم ترین آئینی فریضہ ہے، دستور کا آرٹیکل 5 ہر شہری کو ریاست سے وفاداری اور آئین اور قانون کی تابعداری کا پابند بناتا ہے۔ ریاست عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی اپنے اختیارات اور اقتدار کے استعمال کی پابند ہے، قومی اسمبلی کے انتخابات جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہیں‘ آپ (صدر) نے وزیراعظم کے مشورے پر 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کی، لہٰذا انتخابات کی تاریخ کا تعین بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق الیکشن ایکٹ 2017ء کا سیکشن 57 کلی طور پر آئین کی مذکورہ شق کے تابع ہے۔ دستور کے آرٹیکل 48(5) کی رو سے انتخابات کی تاریخ کا تعین بطور صدر آپ ہی کے ذمے ہے۔ بطور صدرِ مملکت آپ انتخابات کی تاریخ کا تعین کا آئینی تقاضا پورا کریں‘‘۔
اس خط کے بعد مسلم لیگ (ن) کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے صدرِ مملکت کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ آپ کی آئینی میعاد ختم ہو چکی ہے‘ الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے آپ یہ بتائیں کہ ایوانِ صدر کب خالی کر رہے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف ملک میں معاشی، سیاسی اور آئینی بحران چاہتے ہیں۔ دوسری جانب عام انتخابات وقت پر کرانے کیلئے سینیٹ میں قرارداد جمع کرائی گئی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے یہ قرارداد جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ عام انتخابات مقررہ مدت کے اندر کرائیں‘ جمہور کے نمائندوں کے انتخاب کیلئے آئین میں تفصیل اور لازمی طریقہ کار دیا گیا ہے، اس پر عمل درآمد ریاست کے تمام اداروں پر لازم ہے۔ مقررہ مدت میں انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا محض استحقاق نہیں بلکہ آئینی فریضہ ہے۔ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کرے۔ قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ تمام ادارے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد فراہم کریں۔ ادھر الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں اور عام انتخابات میں نتائج کی وصولی کے لیے الیکشن مینجمنٹ سسٹم تیار کر لیا گیا ہے اور آئندہ عام انتخابات کے دوران 3600 ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی خدمات ریٹرننگ آفیسروں کو مہیا کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ انتخابات کے دوران انہیں ہر قسم کی معاونت حاصل ہو۔ ان ملازمین کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے ایک جامع ٹریننگ پروگرام کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ٹریننگ 14 سے 16 ستمبر تک 16 مختلف شہروں میں ہو گی، جس کا مقصد انتخابی عمل میں مزید شفافیت لانا اور کام کو بروقت مکمل کرنا ہے۔ اس ٹریننگ کی مؤثر و جامع مانیٹرنگ کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک جدید مانیٹرنگ سسٹم بھی تیار کیا ہے۔ کمیشن کے 25 سینئر افسران اس ٹریننگ کی مانیٹرنگ اور نگرانی کریں گے۔
جیساکہ اوپر کہا گیا کہ عام انتخابات کی اہمیت اور ان کے انعقاد سے کوئی بھی ادارہ، جماعت یا شخصیت انکار نہیں کر سکتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے مفادات، حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل الیکشن کے انعقاد کی تاریخ چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ جلد ازجلد الیکشن ہوں‘ اس طرح شاید انہیں زیادہ ووٹ پڑیں گے کیونکہ ان کے خیال میں اس وقت عوام چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور عوامی ہمدردی انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ ملک میں مہنگائی کی حالیہ لہر بھی ان کی انتخابی مہم کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں عام انتخابات میں تاخیر کو اپنے لیے بہتر سمجھتی ہیں اور سابق حکمران قیادت سوچتی ہے کہ جب تک ملک میں معاشی بحران کم نہ ہو‘ انہیں الیکشن میں نہیں جانا چاہئے۔ ایک عام شہری کی طرح میری رائے بھی یہی ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو جلد از جلد الیکشن کی ممکنہ تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے کیونکہ ابتر سیاسی صورتحال سے معاشی صورتحال بھی زوال پذیر ہے اور انتخابات کے حوالے سے بڑھتی غیر یقینی مزید بحران پیدا کر سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں