کہا جاتا ہے کہ انصاف وہی اچھا ہوتا ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے جب چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل پر ازخود نوٹس لینا شروع کیے تو ملک کے عام غریب آدمی کو بھی انصاف کی کرن نظر آنے لگی۔ جب کوئی مظلوم بزرگ، مرد و خاتون کسی سرکاری افسر کے سامنے بے بس ہو کر کہتے کہ اب سپریم کورٹ ہی جانا پڑے گا تو ان کی اتنی سی بات اس بدعنوان یا پتھر دل افسر کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے کافی ہوتی تھی اور محض عدالتِ عظمیٰ کے نام پر ہی غریبوں کے زیادہ تر کام ہو جایا کرتے تھے جبکہ باقی ماندہ میں سے اکثریت کو اعلیٰ عدلیہ سے انصاف مل جاتا تھا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ جسٹس افتخارچودھری کے بعد لوگوں کو انصاف نہیں ملا، یقینا ہر دور میں عدالتیں فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہی کرتی آئی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بعض سیاسی کیسوں میں کچھ فیصلوں سے کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرا اور یہ منفی تاثر ایک عام شہری کی انصاف کی امیدوں پر پانی پھیرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ جب انصاف کے افق پر سیاسی اثر و رسوخ چھایا نظر آ رہا ہو تو پھر غریب اور کمزور آدمی خود کو بے بس اور تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد سپریم کورٹ ایک بار پھر عام آدمی کیلئے نئی امیدوں کا محور بننے لگی ہے اور منصفِ اعظم پاکستان کے اقدامات سے انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنے لگا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے بعد کئی اچھی روایات قائم کی ہیں جو عدل کے بنیادی تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ ماضی میں جب بھی کسی اہم قومی معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ سامنے آتا تو اسے یہ کہہ کر رَد کر دیا جاتا کہ پہلے ہی عدلیہ پر مقدمات کی بھرمار ہے اور فل کورٹ کیلئے ججز دستیاب نہیں۔ ماضی قریب میں اسی سبب مخصوص بینچز قائم کرکے عدالتی نظام چلانے کی کوشش نظر آئی اور 2019ء کے بعد سے کسی بھی کیس میں فل کورٹ تشکیل نہیں دیا گیا تھا، لیکن نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھاتے ہی فل کورٹ بینچ تشکیل دے کر عدالت عظمیٰ کی غیر جانبداری کا ثبوت دیا، جس سے عام آدمی بھی عدالتوں سے فوری انصاف کی توقع کرنے لگا ہے۔ ماضی میں فل بینچ نہ بنانے کے حق میں دیے گئے دلائل یقینا وزن رکھتے ہوں گے اور ان میں سب سے اہم دلیل یہ تھی کہ فل بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی فورم نہیں رہتا، اس لیے اس حقِ اپیل کو قائم رکھنے کیلئے عدلیہ فل بینچ تشکیل دینے سے گریزاں رہی۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سوچ اور مخصوص بینچوں اور مخصوص فیصلوں نے سیاسی جماعتوں کو عدلیہ کے حوالے سے ایک منفی بیانیہ بنانے کی راہ سجھائی جس سے اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ اور عام آدمی کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے اقدامات سے عدلیہ کی ساکھ پر مثبت اثرات مرتب ہوتے نظر آ رہے ہیں؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ چند ابتدائی فیصلوں پہ کوئی مستقل تاثر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ اقدامات عدلیہ کی ساکھ کی بحالی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں‘ اس بات کا فیصلہ ایسے اقدامات کے تسلسل سے ہوگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کی کارروائی کو براہِ راست نشر کر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قوم کو دکھایا کہ سپریم کورٹ میں ججز کس طرح فیصلے کرتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے عدالتِ عظمیٰ کے معاملات میں شفافیت کے عنصر کو نمایاں کرنے کی نپی تلی کاوش کی جسے عوامی سطح پر بہت سراہا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام ایک عام شہری کے لیے انصاف کی امید بن کر سامنے آیا ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد اگلے روز جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس عدالت میں پہنچے تو بغیر پروٹوکول اور کسی قسم کے اہتمام کے‘ وہ عام گاڑی میں سوارتھے۔ انہوں نے گارڈ آف آنر بھی نہیں لیا۔ بڑی سادگی لیکن شان کے ساتھ وہ عدالت پہنچے اور اپنے دور کا آغاز کیا۔
ہمارا ملک اس وقت سنگین بحرانوں کا شکار ہے جو ختم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید ہمارے اربابِ اختیار کے ضرورت سے زیادہ پروٹوکول اور حد سے زیادہ شاہانہ اخراجات ہیں جن کی ہماری قوم اور ہماری معیشت متحمل نہیں ہو سکتی، یہی وجہ ہے کہ بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ عوام اور خواص کی بڑھتی ہوئی تفریق مسائل میں ہمیشہ اضافہ کرتی ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران ملک میں سیاسی بحران بھی بھیانک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ملک میں سیاسی افراتفری کا مقصد صرف اقتدار اور ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ عوامی اور قومی مفادات کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ صرف عوامی تاثر نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاستدان صرف اپنے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات‘ ان پر بات کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتیں اورمیدانِ سیاست میں اقتدار کی رسہ کشی کا جو کھیل چل رہا ہے اس نے عوامی مسائل اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں اب ایک عام آدمی اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ عدلیہ ہی امید کی واحد کرن ہے۔
اس وقت پاکستان کی قومی معیشت مکمل طور پر بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہو یا تجارتی خسارہ، ڈالر کی اڑان ہو یا صنعت و حرفت کی سست روی، معاشی معاملات بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے تو اس کی حالتِ زار کے بارے میں دو آرا نہیں پائی جاتیں۔ عام آدمی کی معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ عالمی سیاسی حرکیات میں جوہری تبدیلیوں کے باعث ملک کو بیرونی امداد ملنا بند ہو چکی ہے جبکہ آسان شرائط پر غیر ملکی قرضوں کا حصول بھی اب محال ہو چکا ہے۔ اپنے وسائل سے اپنے مالی معاملات چلانے میں سخت مشکل کا سامنا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں قرض اور امداد کے بغیر اپنے مالی و معاشی معاملات چلانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں، اسی لیے اب شدید قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ دوسری طرف تیل کی عالمی منڈی بھی خاصی گرم ہو رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ چین نے 2019ء میں کووڈ کے باعث جو پابندیاں عائدکر رکھی تھیں اب انہیں مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے چین کے انڈسٹریل کمپلیکس کی رفتار بڑھنے سے توانائی کی ضروریات؍ طلب میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی لیے تیل و گیس کی طلب میں اضافے کے باعث ان کی عالمی مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، اس کے اثرات پاکستان میں دیکھے جا رہے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس کے عوامی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ملک میں عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے، پٹرول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ لوگوں کے لیے ذاتی گاڑی کا استعمال تو دور کی بات‘ موٹر سائیکل کا ایندھن افورڈ کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے، معاشی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ کہیں پلازوں کے تہہ خانوں سے اربوں روپے برآمد ہو رہے ہیں تو کہیں عام شہری بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی افراتفری بھی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنا تو دور‘ بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ ایسے حالات میں عدلیہ کے نئے دور سے لوگوں میں انصاف کی نئی کرن نظر آئی ہے اور سپریم کورٹ ایک بار پھر سے لوگوں کی امیدوں کا محور بن رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ مثبت انداز میں آگے بڑھتا رہے اور ہماری عدلیہ ملک بھر میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر نظام عدل قدرے فعال ہو جائے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی کے واضح اثرات نظر آنے لگیں گے جبکہ عام آدمی کے مسائل و مشکلات میں بھی کمی آئے گی۔