پاکستان اس وقت مختلف بحرانوں کا شکار ہے جن میں توانائی اور معاشی بحران تو شامل ہیں ہی لیکن سیاسی عدم استحکام کا بحران بھی شدید ہے جس کی وجہ سے غیر یقینی کی کیفیت کا سامنا ہے اور اسی سبب روپے کے مقابلے میں امریکی کرنسی نے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ روپے کی بے قدری کی وجہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام میں مارکیٹ کا معاشی رہنمائی سے محروم ہونا ہے۔ ڈالر اس قدر بے قابو ہوا کہ اوپن مارکیٹ میں 333 روپے کی حد کو جا پہنچا؛ تاہم سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے کے بعد ڈالر کی اڑان عارضی طور پر تھم گئی۔ اب روپے کی قدر کچھ بہتر ہوئی ہے اور امریکی ڈالر کی قیمت 300 روپے سے بھی نیچے آ گئی ہے۔ دوسری جانب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس اضافے کی ایک بڑی وجہ پاکستانی کرنسی کی بے قدری ہی ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد غیر ملکی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان نے قرضوں کی ادائیگی امریکی ڈالر ہی میں کرنی ہے۔ اگر ہماری حکومت اور متعلقہ حکام اسے لگام دینے میں ناکام رہے تو نہ صرف بیرونی قرضوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو جائے گا بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ ان حالات میں مجھے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل صاحب کی ایک بات یاد آ رہی ہے جو انہوں نے بہت پہلے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی کا واحد حل یہی ہے کہ ہماری حکومت ڈیفالٹ کر جائے اور صاف صاف کہہ دے کہ ہمارے پاس اپنے عوام کے لیے پیسے نہیں‘ ہم کہاں سے اور کیسے بیرونی قرضے واپس کریں؟ آئی ایم ایف سمیت تمام غیر ملکی اداروں کو کورا جواب دیا جائے کہ اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں اور ہم بیرونی قرضوں کی اقساط ادا نہیں کر سکتے۔ جب ہمارے معاشی حالات بہتر ہوں گے تو ہم تمام بیرونی قرضے ادا کر دیں گے۔ پاکستان مزید قرضے لینے سے بھی گریز کرے اور عارضی طور پر اقساط بھی روک دے۔ جب اس معاملے میں ہینڈز اَپ کیا جائے گا تو امریکہ سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے خودبخود نہ صرف ہمارے قرضے ری شیڈول کریں گے بلکہ اقساط کی ادائیگی کے لیے مرضی کے مطابق مہلت بھی دیں گے اور ہر قسم کی رعایات بھی پیش کریں گے۔ جنرل صاحب فرماتے تھے کہ اگر ہماری حکومتیں سنجیدہ نہ ہوئیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ بیرونی قرضوں کا بوجھ ہماری کمزور معیشت کو تباہ کرکے رکھ دے گا اور پھر ہماری ملکی کرنسی اس قدر کمزور ہوتی جائے گی کہ ہمیں بیرونی آقائوں کی کڑی سے کڑی شرائط بھی تسلیم کرنا پڑیں گی جو پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دیں گی۔
آج حمید گل صاحب تو ہم میں نہیں، لیکن ان کی باتیں بہت یاد آ رہی ہیں۔ موجودہ معاشی حالات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ڈیفالٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف آئے روز پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور عوام پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کے لیے ایسی سخت شرائط پیش کر رہا ہے جو ہماری معیشت کو مزید تباہی سے دوچار کر رہی ہیں۔ ملک کی اقتصادی صورتحال کے باعث چوریوں، ڈکیتیوں، راہزنی اور سٹریٹ کرائمز کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کے واقعات بھی خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں امن عامہ کے حوالے سے حالات نہایت ابتر ہو سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران حمید گل مرحوم جیسے دور اندیش رہنما کی تجویز پر غور کریں اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے صاف انکار کر دیا جائے کہ ہم کم از کم تین‘ چار برس تک قرضوں کی اقساط ادا نہیں کر سکتے۔ جب ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو گی، مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا اور قیمتیں اپنی جگہ پر واپس آ جائیں گی تو پھر ہم آسان اقساط کی صورت میں تمام قرضے واپس کر دیں گے۔ بیرونی قرضوں کی اقساط روکنے سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی استحکام آئے گا اور ہماری ملکی کرنسی بھی مستحکم ہو گی۔
مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور میثاقِ معیشت ناگزیر ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف تو پہلے ہی سے میثاقِ معیشت کے حامی ہیں اور انہوں نے پہلے بطور اپوزیشن لیڈر اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کو ایک سے زائد بار میثاقِ معیشت کے لیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھاکہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے اور عوام کو بدحالی سے بچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو کم از کم میثاقِ معیشت پر متفق ہونا پڑے گا لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں اس اہم قومی مسئلے پر بھی متحد نہ ہو سکیں۔ اگر سیاستدانوں نے اپنے باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد میں میثاقِ معیشت پر دستخط کیے ہوتے تو موجودہ منظر نامہ شاید قدرے مختلف ہوتا۔ ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور کم از کم ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے ایک پیج پر آ جائیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی کا جائزہ لیا جائے تو ادارۂ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 38.66 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ رواں ہفتے اشیائے خور و نوش اور پٹرولیم مصنوعات سمیت 22 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پیاز، دال مسور، دال مونگ، دال ماش، انڈے، چکن اور مٹن‘ بیشتر بنیادی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ چکن کی فی کلو قیمت میں تقریباً 32 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 15 روپے مزید مہنگا ہو گیا۔ ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت اب 3 ہزار 147 روپے سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر فوڈ آئٹمز اور نان فوڈ آئٹمز کی قیمتوں میں 118 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس وقت ملک میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد تحلیل ہو چکی ہیں اور نگران حکومتیں برسراقتدار ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو چاہیے کہ سب سے پہلے عوام کو میثاقِ معیشت پر اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ مہنگائی، بھوک اور افلاس سے قوم کو بچانے کے لیے مضبوط معاشی پالیسیوں اور ان میں استحکام کی ضرورت ہے جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد اور یکسو ہونا پڑے گا اور متفقہ طور پر ایک ایسا میثاقِ معیشت تیار کرنا ہو گا جس کی موجودگی میں حکومتوں کی تبدیلی کی صورت میں معاشی پالیسیاں متاثر نہ ہوں کیونکہ ماضی میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے کہ ایک حکومت جو بھی معاشی پالیسیاں بناتی‘ اگلی حکومت اپنی مرضی و منشا کے مطابق اس میں ترامیم کر دیتی یا اسے یکسر رد کر دیتی جس کی وجہ سے سرمایہ کار کا اعتماد متزلزل ہوا اور اس نے ملک سے باہر جانے میں عافیت سمجھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہماری کرنسی مستحکم ہو سکی اور نہ ہی مہنگائی و بیروزگاری کی شرح میں کمی آئی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی معاہدے اپنی جگہ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے عوام کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب مشکل فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ حکومت آئی ایم ایف کے دبائو میں اب تک مسلسل ایسے فیصلے کرتی چلی آ رہی ہے جن سے مہنگائی میں کئی سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اب نگران دور میں بھی یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو اعتماد میں لے کر سیاسی جماعتیں میثاقِ معیشت کی طرف بڑھیں اور پھر اسی کی روشنی میں عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے عوام کی حالتِ زار سے آگاہ کرکے قائل کریں کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جانا چاہیے اور قرضوں کی ادائیگی کی خاطر پاکستانی عوام کا گلا نہ گھونٹا جائے، ورنہ خدا نخواستہ یہاں سری لنکا سے بھی بدتر حالات پیدا ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں کا متحد ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن غیر سیاسی نگران حکومت کو میثاقِ معیشت کے لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تجاویز لے کر ٹھوس پالیسی تیار کی جائے اور اس پر سیاسی جماعتوں کی قیادت سے دستخط کرائے جائیں۔ یہ کام جلد از جلد کرنا چاہیے ورنہ پانی سر سے گزر جائے گا۔