اب یاکبھی نہیں!

اس بات کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لیے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے اور اب بھی اٹھا رہا ہے۔ ہم افغانوں کی جنگ لڑتے رہے کہ ہمسایہ مسلم ملک کے باشندے امن، سکون اور آزادی کی زندگی بسر کر سکیں۔ ان کی مدد کی، مشکل گھڑی میں انہیں پناہ دی، اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں سہولتیں مہیا کیں۔ ابتدا میں پناہ گزین کیمپوں کی بھرپور دستگیری کی گئی، انہیں ہر ممکن سہولتیں فراہم کی گئیں اور پاکستان بھر میں آزادانہ آمد و رفت کی اجازت بھی دی گئی جس کا انہوں نے نہ صرف بھرپور بلکہ ناجائز فائدہ اٹھایا اور پاکستان بھر میں اپنا ایسا جال پھیلا دیا کہ اب ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں، مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘‘ کی سی صورتحال درپیش ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان افغانوں کی جنگ لڑتا رہا اور انہوں نے پاکستان ہی کو میدانِ جنگ بنا ڈالا۔ مصدقہ معلومات کے مطابق پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گرد ملوث تھے۔ افغان دہشت گرد پاکستان میں عرصے سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ان کے ملوث ہونے کی تصدیق بھی ہو چکی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد نیٹ ورک کو بھی افغان دہشت گردوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
پچھلے چند مہینوں میں پاکستان میں ہوئے 24 خودکش حملوں میں 14 حملہ آور افغان تھے۔ 12 مئی کو مسلم باغ دہشت گرد حملے میں بھی پانچ افغان ملوث تھے۔ 12 جولائی کو ژوب کینٹ پر تین سے پانچ افغان دہشت گردوں ہی نے حملہ کیا تھا۔ قبل ازیں 30 جنوری کو پولیس لائنز پشاور اور 29 ستمبر کو ہنگو میں ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث حملہ آوروں کا تعلق بھی افغانستان سے تھا۔ ان تمام حملہ آوروں کی تصدیق کے بعد اب وقت آچکا ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کر چکے ہیں۔ اب عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ افغان دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں پاکستان کی مدد کرے، ورنہ دہشت گردی کا یہ ناسور پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور کوئی بھی ملک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے گا۔
حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو یکم نومبر تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اجلاس میں سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر اور سول و عسکری حکام نے پاکستان کی عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے اہم فیصلے کیے۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے اور اس کے بعد وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر ملکیوں کی گرفتاری اور جبری ملک بدری کو یقینی بنائیں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 10 اکتوبر سے پاک افغان بارڈر سے نقل و حرکت محض کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر ہو گی۔ یکم نومبر سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا ہی پر دی جائے گی، تمام قسم کی دستاویزات سرحد پار سفر کے لیے غیر مؤثر اور غیر قانونی متصور ہوں گی۔ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی اور ان کو رہائش دینے والے پاکستانی شہریوں، کمپنیوں اور اداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ وزارتِ داخلہ کے زیر نگرانی ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ارکان شامل ہوں گے۔ اس ٹاسک فورس کا مقصد جعلی شناختی کارڈ کے حامل افراد اور ان کی جعلی کاغذات پر بنی غیر قانونی جائیدادوں کو ضبط کرنا ہو گا۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق یہ پالیسی صرف افغانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق تمام ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن پہ ہو گا۔ کچھ شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔ ایک ہیلپ لائن بھی بنائی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ عوام غیرملکیوں کو پکڑنے میں حکومت کی مدد کریں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ افغان باشندے لاکھوں‘ کروڑوں روپے کے کاروبار کر رہے ہیں، وہ یہاں پر جائیدادیں خرید رہے ہیں جو کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف حوالہ؍ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ہیں بلکہ ہیومن ٹریفکنگ اور اجناس و ڈالر کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد مزید افراد نے افغانستان سے پاکستان کا رخ کیا اور اس وقت ملک کے ہر کونے میں غیر قانونی افغان تارکین وطن مقیم ہیں، بے شمار افغان باشندے پاکستان میں کروڑوں روپے مالیت کا کاروبار کر رہے ہیں اور ٹیکس بھی نہیں دیتے، نہ ہی وہ ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں۔ حکومت کے پاس اس وقت کوئی ایسا میکانزم بھی نہیں جس سے وہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد اور ان کے کاروبار سے متعلق کوئی معلومات حاصل کر سکے؛ تاہم حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد حکومت غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانوں کو بے دخل کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ ہے اور اسی لیے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، راولپنڈی، خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں سے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اگلے مرحلے میں غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افراد کے وہ کاروبار‘ جو رجسٹرڈ نہیں ہیں‘ کو بند کیا جائے گا۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی غیر قانونی سرگرمیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخوا ہے جہاں ایک تخمینے کے مطابق 3 لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔ یہ افراد اغوا برائے تاوان، منشیات فروشی، غیر قانونی اسلحے کی خرید و فروخت، انسانی سمگلنگ اور دیگر بڑے جرائم میں ملوث ہیں۔ غیر قانونی مقیم افراد پاکستان میں متعدد جرائم کی بڑھتی شرح کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ لاتعداد غیر قانونی افراد صرف خیبر پختونخوا میں مختلف جرائم میں مطلوب ہیں۔ اب تک 3911 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 2014ء سے اب تک 287 افغان باشندوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا جن میں سے21 کو سزائے موت بھی دی جا چکی ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قید 432 غیر قانونی مقیم افغانوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ 44 افراد پر جرم ثابت ہو چکا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان میں موجود غیر قانونی شہریوں کو رجسٹریشن کے ذریعے ریکارڈ پر لایا جائے تاکہ ایک منظم طریقہ کار کے ذریعے ان افراد کی واپسی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس حوالے سے افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور بتایا جائے کہ ہم ایک اچھے ہمسائے کی حیثیت سے کئی دہائیوں سے افغان بھائیوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، ہم نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کر افغان مہاجروں کو تعلیم، صحت اور روزگار سمیت تمام سہولتیں فراہم کیں لیکن اس نیکی کے بدلے ہمیں بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تمام تانے بانے سرحد پار جا کر ملتے ہیں جبکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی میں زیادہ تر غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ملوث تھے جس کے بعد اب ضروری ہو گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو دیس نکالا دیا جائے۔ عالمی برادری کو بھی اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرنی چاہئے ورنہ یہ آگ باقی دنیا کا امن بھی تباہ کر دے گی۔ نگران حکومت اور قومی اداروں نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکیوں کو نکالنے کے لیے یکم نومبر کی جو ڈیڈلائن دی ہے اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جانا چاہئے۔ اب اگر اس کام کا بیڑہ اٹھا لیا ہے تو اس کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ اب بھی یہ کام نہ ہو سکا تو پھر شاید آئندہ کئی دہائیوں میں بھی نہ ہو سکے اور حقیقی امن و امان کا خواب ادھورا ہی رہ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں