گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف علاقوں میں خوفناک زلزلہ آنے کی پیش گوئیاں اور افواہیں زوروں پر رہیں۔ ایک ڈچ ریسرچ آرگنائزیشن کی جانب سے پاکستان میں جلد ایک طاقتور زلزلہ آنے کی پیش گوئی نے نہ صرف سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکام بھی اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ سائنس کے شعبے سے وابستہ افراد اصرار کر رہے ہیں کہ زلزلوں کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں‘ سرحد پار بھی اس پیش گوئی کو نہایت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ ہالینڈ کے سولر سسٹم جیومیٹری سروے انڈیکس(ایس ایس جی آئی) نے بلوچستان میں چمن فالٹ لائن پر طاقتور زلزلے کی پیش گوئی کی تھی۔ ایس ایس جی آئی کے طریقہ کار میں سطح سمندر کے قریب ماحولیاتی برقی چارج میں اتار چڑھائو کی نگرانی شامل ہے، یہ اتار چڑھائو زمین کے محور کی گردش سے منسلک ہے، نگرانی کا مقصد ان خطوں کی نشاندہی کرنا ہے جہاں ایک سے نو روز کے دوران زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس ادارے کے دعوے ابتدائی طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کیے جا رہے تھے لیکن جب ایک محقق اور سی سمولوجسٹ فرینک ہوگربیٹس (Frank Hoogerbeets)کی جانب سے اس دعوے کی تائید کی گئی تو اس کو اہمیت حاصل ہو گئی جبکہ اس سے قبل بھی اس ادارے کی کئی پیش گوئیاں درست ثابت ہو چکی ہیں۔ الحمدللہ پاکستان ابھی تک محفوظ ہے؛ تاہم گزشتہ روز مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبے ہرات میں قیامت خیز زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 2050 سے زائد ہو گئی ہے۔
افغانستان میں آئے زلزلے سے 9 ہزار 240 افراد زخمی ہوئے جبکہ ایک ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔ صوبہ ہرات میں آنے والے زلزلے کی شدت 6.3 ریکارڈ کی گئی جبکہ بادغیس اور فرح صوبے میں بھی آفٹر شاکس محسوس کیے گئے۔ زلزلے کا مرکز ہرات سے 40 کلومیٹر شمال مغرب میں تھا اور اس کے بعد 4.6 سے 6.3 شدت کے درمیان سات آفٹر شاکس بھی محسوس کیے گئے۔ صوبہ ہرات کے ضلع زنداجان میں زلزلے کے مرکز کے قریب واقع گائوں سربلند میں درجنوں گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے، جہاں لوگ تاحال ملبے میں اپنے پیاروں کی تلاش میں مصروف ہیں اور خواتین اور بچے کھلے آسمان تلے موجود ہیں۔ افغانستان میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے نے 18 برس قبل پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ کی یاد تازہ کر دی۔ ویسے بھی گزشتہ روز ہم نے 2005ء میں اس تباہ کن سانحہ کی اٹھارہویں برسی منائی ہے۔ اس حوالے سے اتوار کی صبح زلزلہ آنے کے وقت یعنی 8 بج کر 52 منٹ پر سائرن بجائے گئے اور اس کے بعد ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
8 اکتوبر 2005ء کی صبح پاکستان کے شمالی علاقہ جات 7.6 شدت کے قیامت خیز زلزلے سے لرز اٹھے تھے۔ اس زلزلے سے آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقے بہت بڑی تباہی سے متاثر ہوئے تھے۔ زلزلے سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کے ابتدائی تخمینے کے مطابق 88 ہزار افراد جاں بحق اور 30 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔ 5 لاکھ سے زائد گھر، ہزاروں کلومیٹر سٹرکیں، سینکڑوں پل اور مواصلات کا نظام مکمل تباہ ہو گیا تھا۔ اس زلزلے کی تباہ کاریوں سے ملک کے شمالی علاقوں میں موجود تمام سول، سرکاری و غیر سرکاری ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔ اس زلزلے سے دریائے کنہار کے کنارے واقع خیبر پختونخوا کا خوبصورت شہر بالاکوٹ مکمل تباہ ہو گیا تھا۔آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ سمیت کئی علاقوں میں زلزلے سے تباہی کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایک اندازے کے مطابق 12000 طلبہ و طالبات اور 1500 سے زائد اساتذہ بھی اس تباہ کن زلزلے میں زندہ درگور ہو گئے تھے۔
8 اکتوبر 2005ء کو رمضان المبارک کے مہینے میں صبح 8 بج کر 52 منٹ پر زلزلے کی صورت میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہے۔ ہفتہ وار چھٹی کے باوجود جب ٹیلی وژن پر ہولناک تباہی کے مناظر دیکھے تو رہا نہ گیا اور فوری طور پر اخبار کے دفتر جا پہنچا۔ کے پی اور آزادکشمیر سے تباہی و بربادی کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا کا ایسا دور نہیں تھا جس کی وجہ سے صحیح حالات و واقعات دو روز بعد ہی سامنے آئے اور پھر آزادکشمیر سے سردار سکندر حیات کا رُلا دینے والا بیان سننے کو ملا کہ ''میں تو اب قبرستان کا وزیراعظم رہ گیا ہوں‘‘۔ زلزلے کے دو روز بعد مجھے دفتر کی جانب سے حکم ملا کہ رپورٹنگ ٹیم کے ہمراہ زلزلے کی کوریج کے لیے آزاد کشمیر جانا ہے۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے افطاری کیلئے پینے کا پانی، کھجوریں اور پھل وغیرہ گاڑی میں رکھ لیے، ماسک اور ڈسپوزایبل گلوز بھی خرید لیے اور اگلی صبح مظفرآباد کے لیے روانہ ہو گئے۔ آزاد کشمیر پہنچے تو وہاں قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ سردار سکندر حیات کا بیان حقیقت دکھائی دے رہا تھا۔ ہر طرف انسانی نعشیں بکھری پڑی تھیں اور تعفن پھیل رہا تھا۔ کوہالہ پل سے لے کر مظفرآباد تک‘ نہ توکوئی پولیس اہلکار نظرآیا اور نہ ہی کوئی انتظامی افسر دکھائی دیا۔ پاکستانی یا کشمیری حکمران تو بہت دور کی بات‘ کوئی سیاسی رہنما یا عوامی نمائندہ بھی نظر نہ آیا۔ اس تباہی کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس قیامتِ صغریٰ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔ کوئی عمارت، سڑک، گلی یا جگہ ایسی نہ تھی جہاں انسانی نعشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں۔ اس وقت تک کوئی ٹیم وہاں نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے ہمیں گاڑی مظفر آباد سے باہر ہی کھڑی کرنا پڑی اور شام کو افطاری کا وقت قریب آیا تو گاڑی سے پانی لینے کیلئے سڑک کا رخ کیا تو ایک گاڑی مخالف سمت سے نمودار ہوئی اور ہمارے سامنے آکر رک گئی۔ یوں لگا جیسے کوئی جاننے والا ہے۔ گاڑی سے اترنے والوں میں سے ایک راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے زاہد حسین کاظمی تھے اور دوسرے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان تھے۔ زاہد کاظمی نے ہمارا تعارف خان صاحب سے کرایا تو وہ فوری انٹرویو دینے پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دو روز سے مسلسل سفر میں ہیں اور راولپنڈی سے ایبٹ آباد اور بالاکوٹ سے ہوتے ہوئے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کاخود سروے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں اور ابھی اس سے آگے آزاد کشمیر کے تمام متاثرہ علاقوں کا خود دورہ کرکے اندازہ کر رہے ہیں کہ کس کس علاقے میں کس کس چیز کی اورکتنی کتنی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمائما خان بڑی تعداد میں برطانیہ سے امدادی سامان بھجوا رہی ہیں اور اس کے لیے ہم خود سروے کر رہے ہیں تاکہ امدادی سامان اصل مستحقین تک پہنچ سکے۔ یہ وہ گھڑی تھی جب پاکستان اور آزاد کشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدان خوابِ غفلت ہی سے بیدار نہیں ہوئے تھے اور صرف خان صاحب ہی اپنی جماعت کے ایک بانی کارکن زاہدکاظمی کے ہمراہ ان دشوار گزار علاقوں میں بھوکے پیاسے گھوم رہے تھے۔ شاید اس وقت تک چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار کے مزے نہیں لوٹے تھے کیونکہ بعد میں جو تبدیلی کی سیاست پاکستانی عوام نے دیکھی‘ وہ 2005ء والے خان صاحب کے کردار سے یکسر الٹ تھی۔ خیر‘ بات زلزلے کی ہو رہی تھی اس لیے سیاست کو زیرِ بحث نہیں لاتے۔2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو 18برس بیت چکے ہیں۔ اس زلزلے کے بعد ہم نے قوم کا شاندار جذبہ بھی دیکھا اور متاثرین کا صبر بھی مثالی تھا۔ دنیا نے بھی دل کھول کر مدد کی تھی جبکہ اس سانحہ کے بعد پاکستان میں قدرتی آفات اور سانحات سے نمٹنے کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) سمیت مختلف اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جن کا سالانہ بجٹ کروڑوں بلکہ شاید اربوں روپے ہو گا لیکن 2005ء کے بعد آنے والے سیلابوں اور مختلف دیگر سانحات اور قدرتی آفات میں ہمیں ویسی کارکردگی نظر نہیں آئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ سانحات کی برسی منانا اور صرف افسوس کا اظہار کر دینا کافی نہیں بلکہ ہمیں ان سے نمٹنے کیلئے اپنی تیاریوں اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہو گا۔