ایمبولینس کاراستہ‘ سب سے پہلے

کہا جاتا ہے کہ قبر تک انسان کا سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور بہت ساری باتیں اسے تب سمجھ آتی ہیں جب اس کے اپنے ساتھ پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات حادثات بھی انسان کیلئے سبق آموز بن جاتے ہیں۔ پہلے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنے کالم میں کر چکا ہوں کہ 2008ء میں چھوٹے بھائی پروفیسر اصغر ملک حادثے کا شکار ہوئے تو مجھے سب سے اہم سبق یہ ملا کہ ہمیشہ ایمبولینس کو فوری راستہ دینا چاہیے کیونکہ یہ قیمتی انسانی جان بچانے کا معاملہ ہوتا ہے اور اگر کوئی ایمبولینس راستے میں پھنس گئی اور بروقت ہسپتال نہ پہنچ سکی تو خدانخواستہ کوئی قیمتی انسانی جان ضائع ہو سکتی ہے۔ بس وہ دن اور آج کا دن‘ جب بھی کہیں ایمبولینس کی آواز سنتا ہوں تو فوراً راستہ دیتا ہوں تاکہ وہ بلا رکاوٹ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک ایمبولینس کو ترجیحی بنیاد پر راستہ دینے کا رواج عام نہیں ہوا جو بحیثیت معاشرہ ہماری بے حسی اور غیرذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس رویے کو جاہلیت بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہوتا ہے۔ جس انسان کے دل میں انسانیت کا درد نہیں‘ اس کی عقل پر بھی شک ہی کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کو حقیقت میں ان باتوں کی سمجھ تب آتی ہے جب وہ خود ایسی کیفیت سے گزرے یا اپنے کسی عزیز کو ہنگامی حالت میں ہسپتال لے کر جا رہا ہو اور راستے میں ٹریفک جام ہو جائے۔ کوئی جاہل منچلا گاڑی ایمبولینس کے آگے لگا دے اور راستہ نہ دے۔ سڑک پر کوئی احتجاجی مظاہرہ جاری ہو اور مظاہرین ہٹ دھرمی سے ایمبولینس کو بھی نہ گزرنے دیں یا پھر متعلقہ حکام کی ملی بھگت سے دن کے اوقات میں ٹرک یا دیگر ہیوی ٹریفک شہر میں داخل ہوکر راستے بلاک کر دے تو پھر انسان بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اپنے پیارے کی جان بچانے کیلئے اُسے جلد سے جلد ہسپتال پہنچانا چاہتا ہے لیکن حالات اس کے قابو میں نہیں ہوتے‘ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ایمبولینس کو ترجیحی بنیاد پر راستہ دینا اور ہنگامی حالات میں کسی زخمی یا مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانا کتنا ضروری ہے۔ کئی قیمتی انسانی جانیں تو راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ ایسے واقعات آئے روز ہمارے ملک میں پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے بحیثیت قوم سبق نہیں سیکھا اور ایمبولینس کو راستہ دینے کا اصول نہیں اپنایا۔ بیرونی ممالک میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی بڑی وجہ وہاں خلاف ورزی پر بھاری جرمانے ہیں‘ وہاں کے بگڑے ہوئے امیر زادے بھی جانتے ہیں کہ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جس میں کسی صورت رعایت نہیں ہو گی لہٰذا جرمانے کا یہ خوف انہیں خلاف ورزی سے روکتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا‘ شاید اس کی پہلی وجہ ہمارا کمزور نظام ہے۔ دوسری وجہ ٹریفک پولیس سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کی فرائض میں مبینہ غفلت بھی ہے جبکہ سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزی پر بھی انتہائی معمولی جرمانے اور سزائیں ہے جس کی وجہ سے لوگ بڑی ڈھٹائی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ نے ٹریفک جرمانوں کی شرح میں اضافے کا حکم جاری کیا جو بالکل مناسب اور ضروری ہے۔ پاکستان میں ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ یا خلل پیدا کرنے‘ ایمبولینس کو راستہ نہ دینے یا دیگر قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کی حد پانچ سو روپے سے لے کر ایک یا دو ہزار روپے تک ہے جسے منچلے اہمیت نہیں دیتے۔ اگر ہمارے ہاں بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں کم ازکم پانچ ہزار روپے سے جرمانہ شروع کیا جائے تو لوگ خود بخود عملدرآمد کریں گے۔ موٹروے کی مثال ہمارے سامنے ہے جو لوگ عام شاہراہوں پر سیٹ بیلٹ‘ اشارے اور دیگر قوانین پر عمل نہیں کرتے وہ موٹروے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ان تمام ہدایات پر عمل یقینی بناتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ موٹروے پولیس عام ٹریفک پولیس کے مقابلے میں زیادہ مستعد ہے اور خلاف ورزی پر لازمی جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جس کی شرح بھی عام سڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سنگل سڑک پر بھی تیزی کی خاطر ڈبل لین بناکر اور غیرضروری اوورٹیک کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ جس شاہراہ پر ٹریفک کی دو یا تین لین ہوں وہاں اکثر پانچ یا چھ لین بنا لیتے ہیں حالانکہ اس سے ٹریفک کے بہاؤ میں مزید کمی واقع ہوتی ہے۔ رفتار میں کم ازکم پچاس فیصد کمی آجاتی ہے۔ ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ حادثات کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایمبولینس اور سکول بسیں بھی پھنس جاتی ہیں۔ تیز رفتاری کے چکر میں ہم دوسروں کا راستہ بھی روک لیتے ہیں اور جلد پہنچنے کے بجائے راستے میں ہی پھنس جاتے ہیں۔ لین کی پابندی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں اب موٹروے سمیت اہم شاہراہوں پر ایسے سائن بورڈز تو نصب کر دیے گئے ہیں جن پر بتایا گیا ہے کہ کار اور چھوٹی گاڑیاں کس لین میں رہیں گی اور بس و ٹرک کس لین میں چلیں گے لیکن اس پر عملدرآمد بالکل بھی نہیں کیا جاتا۔
قوم کی تربیت کیلئے ہمیں موثر آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کی ابتدا تعلیمی اداروں سے کی جائے تاکہ ہمارے بچے اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ قانونی معاملات سے بھی آگاہ ہو سکیں اور وہ انسانی جان کی قدرو قیمت بھی جان سکیں اور مستقبل میں ایک اچھے شہری کی حیثیت سے ان قوانین پر عمل کریں۔ ہمارے ہاں ایک اور روایت ہے کہ احتجاجی ریلیاں یا مظاہرے سڑک پر ہوتے ہیں جن سے اکثر ٹریفک جام رہتی ہے جس سے سب سے زیادہ ایمبولینس گاڑیاں اور سکول وینز متاثر ہوتی ہیں۔ احتجاج کرنا یا ریلی نکالنا کسی بھی شہری کا حق ہے لیکن ہمیں بحیثیت انسان بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ ہم سیاسی یا سماجی کارکن بعد میں ہیں اور انسان پہلے ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام بھی سب سے پہلے انسانیت کی فلاح و بہبود کا درس دیتا ہے لہٰذا کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کہیں بھی کوئی لانگ مارچ یا احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہو یا دھرنا دے رہی ہو تو اس کی قیادت کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے کارکنوں کو ہدایات دے کہ بزرگوں‘ خواتین‘ بچوں اور خصوصاً ایمبولینس کو فوری راستہ دینا ہے اور اگر کہیں احتجاج یا دھرنا جاری بھی ہے تو بھی سڑک کی کم ازکم ایک لین ضرور خالی رکھیں کیونکہ ویسے بھی مظاہرین نے اپنے مطالبات تو حکومت کے سامنے پیش کرنا ہوتے ہیں تو پھر عوام کے لیے مشکلات کیوں پیدا کی جائیں۔ پولیس حکام کو چاہیے کہ عدالتِ عالیہ کے احکامات کے مطابق ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانے عائد کیے جائیں تاکہ قوم میں کسی طرح تو ڈسپلن آسکے۔ پولیس اگر موٹر ویز پر ٹریفک قوانین پر سو فیصد عملدرآمد کرا سکتی ہے جبکہ شہر کی گنجان سڑکوں پر تو کسی ڈرائیور کے لیے قاعدے قانون کو توڑ کر بھاگنا اور زیادہ مشکل ہے‘ تو پھر ٹریفک پولیس اندرون شہر اپنی رِٹ قائم کیوں نہیں کر سکتی؟ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری ہمارا اپنا بھی فرض ہے کہیں ٹریفک جام ہو‘ احتجاجی مظاہرہ ہو‘ دھرنا ہو یا کچھ بھی ہو‘ ہم نہ صرف خود ایمبولینس کو راستہ دیں بلکہ اگر کہیں کوئی ایمبولینس ٹریفک میں پھنسی ہوئی نظر آئے تو اس کے لیے راستہ بنا کر سب سے پہلے منزلِ مقصود کی طرف روانہ کریں کیونکہ خدانخواستہ ایسی صورتحال تو کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ سڑک پر ہمارا حق بعد میں اور ایمبولینس کا پہلے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں