سمگلنگ ہمیشہ سے پاکستان کا اہم مسئلہ رہا ہے اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی رہی ہے۔ مغربی ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر مختلف اشیا کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام آسان کام نہیں؛ تاہم یہ بھی درست ہے کہ سمگل شدہ مصنوعات نے پاکستان کی معیشت کے متعدد شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ موبائل فون، ایندھن، سٹیل، گاڑیوں کے پرزہ جات اور روزمرہ کی ضروریات جیسے گھی، دودھ اور چائے وغیرہ کی سمگلنگ ایک معمول کی بات ہے۔ یہ غیر قانونی سرگرمیاں رسمی معیشت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کی حکومتی کوششوں کو مشکلات سے دو چار کرتی آئی ہیں۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ سامان کی غیر قانونی تجارت جاری رہنے کی وجہ سے اب سرحدی سمگلنگ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اندرون و بیرون ملک سامان کی غیر قانونی تجارت میں ملوث سمگلر اس کام کے لیے مختلف راستے اور حربے استعمال کرتے ہیں۔ ایران اور افغانستان سے ملحقہ ناہموار پہاڑی علاقوں سے گزرتے ہوئے زمینی راستوں کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب کے ساتھ سمندری راستوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سمگلر عام طور پر اونٹوں اور گھوڑوں جیسے جانوروں کا استعمال کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں غیر قانونی سامان کو سرحدوں کے پار منتقل کرنے کے لیے فرادی قوت کو بھی بطور کوریئر استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے ان غیر قانونی سرگرمیوں کی استعداد اور وسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔ عام طور پر سمگل شدہ سامان میں سیل فون، ایندھن، اشیائے ضروریہ وغیرہ شامل ہوتی ہیں؛ تاہم چینی اور یوریا جیسی بعض اہم اجناس کو غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر بھی منتقل کیا جاتا ہے، جبکہ پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کو ایسے راستوں سے سمگل کیا جاتا ہے جہاں عام ٹریفک کم ہو اور جو افغانستان اور ایران کے دشوار گزار سرحدی علاقے ہیں۔
سمگلنگ نے ہمیشہ پاکستان کی تجارت اور معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سمگل شدہ اشیا پاکستانی منڈیوں میں طلب کے ایک اہم حصے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غیر قانونی طور پر ملک میں لائی جانے والی اشیا ملکی معیشت میں سالانہ کم و بیش 3.3 بلین ڈالر کا حصہ ڈالتی ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ریگولیٹری ایجنسیاں ملک میں داخل ہونے والے سمگل شدہ سامان کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ لگ بھگ پانچ فیصد ہی ضبط کر پاتے ہیں جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ماضی میں حکام کو خطے میں سمگلنگ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے میں کئی خطرناک اور سنگین چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
موجودہ نگران حکومت نے انسدادِ سمگلنگ کے لیے کئی اہم اقدامات کا اعلان کیا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کسٹمز حکام کو ہدایت کی کہ وہ غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں پر نگرانی سخت کریں اور سمگلنگ کی روک تھام کے لیے نگرانی کا مؤثر نظام نافذ کریں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے غیر قانونی کرنسی اور ڈالر کی سمگلنگ کے انسداد کے لیے کارروائیاں کرتے ہوئے گزشتہ کچھ عرصے میں 127 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے 679 ملین روپے کی خطیر رقم قبضے میں لی۔ سمگلنگ کے ایک اپنی نوعیت کے منفرد واقعے میں تین افراد نے 50 کلوگرام ہیروئن کی کھیپ بھارت منتقل کرنے کے لیے پانی کے راستے اور تیراکی کی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کسٹمز نے سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کر دی ہیں جن کے نتیجے میں ستمبر کے ابتدائی دو ہفتوں میں تقریباً 2.25 ارب روپے کی اشیائے ضروریہ بشمول چینی و یوریا ضبط کی گئیں۔ ان کوششوں کا مقصد اہم اجناس کی غیر قانونی تجارت کو روکنا ہے جو پاکستان کی معیشت کو برباد کرتی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں سرحدی سمگلروں کے خلاف جاری وسیع کریک ڈائون میں مختلف ریاستی ایجنسیوں اور اتھارٹیز کی مشترکہ کاوشیں شامل ہیں۔ ایف سی بلوچستان، اینٹی نارکوٹکس فورس، لیویز ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر ایجنسیوں کے مشترکہ آپریشنز میں بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں منشیات کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اورمنشیات کی پیداوار کے اڈوں، منشیات کے ذخیرہ کرنے کی جگہوں اور قیمتی مشینری کو تباہ کیا گیا ہے۔
انسدادِ سمگلنگ آپریشن اور ریاست کے واضح عزائم کے نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں اور قومی معیشت کے حوالے سے مثبت اشارے بھی ملنے لگے ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری کے بعد اب پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بھی زبردست تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ رواں کاروباری ہفتے کے دوران پاکستان سٹاک مارکیٹ میں 273 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جس کی بدولت 6 سال بعد 100 انڈیکس 50 ہزار کی سطح عبور کر گیا۔ سٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز 100 انڈیکس 601 پوائنٹس کے بینڈ میں رہا؛ تاہم کاروبار کے اختتام پر 100 انڈیکس 238 پوائنٹس اضافے سے 49731 پر بند ہوا۔ حکومتی اقدامات اورکریک ڈائون کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پاکستانی کرنسی کی قدر کافی مستحکم ہوئی ہے اور امریکی ڈالر کی قیمت میں 50 روپے سے زائد کمی نوٹ کی گئی ہے جس کے ثمر کے طور پر حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 40 روپے فی لیٹر کمی کر دی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں بھی 15 روپے فی لیٹر کمی کی گئی۔ پٹرول کی فی لیٹر نئی قیمت اب تقریباً 283 روپے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت تقریباً 303 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے؛ واضح رہے کہ اس وقت بھی پٹرول پر فی لیٹر 60 روپے لیوی اور 22 روپے کسٹمز ڈیوٹی برقرار ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل پر فی لیٹر 50 روپے لیوی اور 23 روپے کسٹمز ڈیوٹی وصول کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے کمی کی گئی تھی۔
نگران حکومت اور ریاستی اداروں کے مؤثر اقدامات کی بدولت ملکی معیشت میں بلاشبہ استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان اقدامات سے عوام کے دلوں میں افواج پاکستان اور دیگر قومی اداروں کی عزت و تکریم میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی تک ان اقدامات کے کماحقہٗ فوائد براہ راست عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک بھر میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی نہیں آ سکی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں چینی، دالیں، گھی، آٹا، گوشت، پھل اور سبزیاں سستی نہیں ہوئیں، حالانکہ ڈالر اور پٹرول سستا ہونے سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد تک فوری کمی ہونی چاہیے تھی۔ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو راتوں رات اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں مگر اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود اشیائے خور و نوش کی قیمتیں برقرار ہیں۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کی انتظامیہ کے احکامات کے باوجود اندرون شہر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم نہیں ہو سکے ہیں جو حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہئے کہ ضلعی اور صوبائی سطح پر سبزی اور پھلوں سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرائی جائیں اور قیمتوں میں کمی کے بعد نئے جاری شدہ نرخ نامے ہر دکان پر نمایاں جگہ پر آویزاں کرائے جائیں جبکہ لوکل اور لانگ روٹ ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بھی کم ازکم پندرہ فیصد کمی کر کے نئے کرایہ ناموں پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔ بلاشبہ موجودہ نگران حکومت اور قومی اداروں کی کارکردگی لائقِ تحسین ہے جس کا ثبوت ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہے؛ تاہم اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے فوری اورٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔