انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا دہرا معیار

انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو صرف مسلم ممالک میں بنیادی انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔ ہمیں تو افسوس 'اپنے‘ ان عقل کے اندھوں پر ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ سمیت سارا مغرب انسانی حقوق کا بڑا محافظ اور سب سے بڑا علمبردار ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال تک نہیں رکھا جاتا۔ ان کی عقل پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں اظہارِ رائے سمیت شہریوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور اپنے ملک کی اخلاقی پابندیاں بھی انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معلوم ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں صرف لباس، اخلاق اور دوسروں کی توہین کرنے کی آزادی ہے، یہ توہین کسی کی عزتِ نفس مجروح کرنے سے لے کر مذہبی دل آزاری تک‘ کہیں بھی میسر آ سکتی ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی غیر جانبدار مورخ انسانی حقوق بارے کچھ تحریر کرے گا تو اسے ہر دور میں مغرب کا دہرا معیار ہی نظر آئے گا اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے خود اس حمام میں بالکل برہنہ ملیں گے۔ کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ایک طرف بھارت کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر سمیت اپنے ہاں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے لیکن امریکہ اور یورپ سمیت مغرب کو وہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نظر آتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل قبلہ اول سمیت فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضہ کرکے وہاں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اسے روکنے کے بجائے اسرائیلی بربریت کو دفاعی کارروائیاں قرار دے رہے ہیں جو ناانصافی اور حقائق سے چشم پوشی کی انتہا قرار دی جا سکتی ہے۔
جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ سمیت مغربی ممالک نے اس کی نہ صرف شدید مذمت کی بلکہ یوکرین کو اسلحے سمیت ہر قسم کی امداد بھی فراہم کی گئی لیکن جب حماس نے بے گناہ فلسطینیوں کے قتلِ عام اور مسلمانوں کے قبلہ اول (بیت المقدس) کی بے حرمتی کرنے اور فلسطینی سرزمین پر غیرقانونی یہودی بستیاں آباد کرنے والے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی تو مغرب کو انسانی حقوق یاد آ گئے‘ وہ مغرب جسے فلسطینیوں کا قتلِ عام کبھی نظر ہی نہیں آیا‘ اسرائیل پر ہوئے چند میزائل حملوں پر تلملا رہا ہے۔ باقی تو چھوڑیں‘ خود روسی حملے میں دوسروں کی ہمدردیاں سمیٹنے والے یوکرین کے صدر بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نکلے۔ غزہ میں برسر اقتدار حماس کی طرف سے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حملے ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کے رشتہ داروں اور پیاروں کے ساتھ باقاعدہ اظہارِ افسوس کیا۔ دیگر مغربی ممالک کے رہنمائوں نے بھی اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جس کے بعد دنیا کے سامنے مغرب کا دہرا معیار بالکل واضح ہو گیا اور دنیا بھر سے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور دہرے معیار کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کی جا رہی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کا اپنے دفاع کا حق ناقابلِ اعتراض ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم رشی سوناک اور جرمن چانسلر سمیت متعدد عالمی سربراہان نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ مذکورہ تینوں رہنمائوں نے تو اسرائیل کا دورہ بھی کر لیا ہے مگر فلسطین کسی کی نظر میں نہیں۔ یورپی کمیشن کے صدر نے صاف الفا ظ میں کہا کہ اسرائیل کو آج اور آنے والے دنوں میں اپنا دفاع کرنے کا حق ہے، لہٰذا یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے؛ تاہم دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے ایسے بیانات پر شدید تنقید کرتے ہوئے دہرے معیار کی نشاندہی کی ہے۔ یوکرین کے دفاعی حق کو عالمی سربراہان نے سراہا اور روس کے حملے کی مذمت کی لیکن اسرائیل کے مغربی کنارے اور غزہ پہ 56 برس کے قبضے پر کچھ نہیں کہا جاتا۔ برطانوی صحافی ارون باستانی نے کہا کہ یوکرین میں شہری اہداف کے خلاف دہشت گردی کی توثیق اور فلسطینیوں کی مذمت میں واضح طور پر دہرا معیار نظر آتا ہے۔ متعدد صارفین نے کہا کہ مغربی سفیروں اور میڈیا نے اپنی سرزمین کا دفاع کرنے والے یوکرینیوں کی حمایت کی لیکن اسرائیل کے خلاف لڑنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک عورت کے چہرے کا خاکہ بنایا گیا ہے جس میں اس کی ایک آنکھ فلسطینی پرچم کے ساتھ بند اور ایک آنکھ یوکرین کے جھنڈے کے ساتھ کھلی ہوئی ہے اس کو مغرب کے دہرے معیار کی علامت کے طور پر شیئر کیا جا رہا ہے کہ دونوں تنازعات کو مغرب کس طرح دیکھتا ہے۔ فلسطین نیشنل انیشی ایٹو کے جنرل سیکرٹری مصطفی برغوتی کے ایک انٹرویو سے سوشل میڈیا پر کچھ کلپس بھی گردش کر رہے ہیں جس میں انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ قبضے کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کیوں کرتا ہے جبکہ یہاں (فلسطین میں )وہ ان کی حمایت کر رہا ہے جو ہم پر قابض ہیں۔
ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مغربی اقوام کے ایک ہی جیسے حالات کے حوالے سے موقف میں دہرے معیار کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ قبل ازیں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایک باقاعدہ رپورٹ شائع کی تھی جس میں عالمی انسانی حقوق پر مغرب کے دہرے معیار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا تھا کہ فلسطین پر قبضے کا ایشو خاص طور پر اہم ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے پرانے تبصرے پھر سے نشر کرتے ہوئے اسے مغربی منافقت قرار دیا۔ دریں اثنا کچھ افراد نے دونوں تنازعات کی مماثلت کرنے سے خبردار کیا اور کہا کہ حماس اور فلسطینیوں کو ایک کرکے نہ دیکھا جائے۔ یوکرین کے فٹ بالر نے بھی انسٹاگرام پر اسرائیل کی حمایت میں پوسٹ لگائی تاہم آن لائن ردِعمل اور اسرائیل کی حمایت پر انکے دہرے معیار پر ہوئی تنقید کے بعد مذکورہ فٹ بالر نے اپنی پوسٹ ہٹا دی اور سوشل میڈیا اکائونٹ کو پرائیویٹ حیثیت میں تبدیل کر دیا۔غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہو چکی ہے جبکہ اسرائیلی بربریت میں بچوں اور عورتوں سمیت اب تک 13 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ پر بمباری کے بعد وہاں سے تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے نقل مکانی کی ہے جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے؛ تاہم امریکہ نے غزہ کیلئے انسانی امداد کی اقوام متحدہ کی قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بدھ کے روز مطالبہ کیا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ تک انسانی امداد کی رسائی کیلئے فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے، لیکن ابھی تک ان کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ محض ایک علامتی ادارہ بن کر رہ گیا ہے اور ہوتا وہی ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے غزہ کی تقریباً نصف آبادی یعنی 11 لاکھ لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنوب کی طرف چلے جائیں کیونکہ وہ اسرائیل کی 75 سالہ تاریخ میں ہوئے حماس کے بدترین حملے کے جواب میں زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی صدر کے دورۂ اسرائیل اور بیانات نے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کے دہرے معیار کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوج ہسپتالوں‘ سکولوں اور عام شہری آبادی کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے اور بچوں و عورتوں سمیت معصوم شہریوں کو شہید کیا جا رہا ہے لیکن اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت مسلم حکمران صرف مذمتی بیانات اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے تک ہی محدود ہیں۔ اگر مسلم ممالک اپنے قبلۂ اول کی آزادی اور فلسطینی بہن بھائیوں کے قتلِ عام کو رکوانے کیلئے یک زبان ہوکرمغرب کے دہرے معیار کے خلاف اتحاد و یگانگت کا اظہار کریں تو نہ صرف فوری جنگ بندی ممکن ہے بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو آئینہ بھی نظر آ جائے گا اور وہ کشمیر و فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں