فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے‘ مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس کی بار بار بے حرمتی اور اب غزہ میں اسرائیل کی ہسپتالوں‘ سکولوں‘ امدادی اداروں کے مراکز‘ شاہراہوں پر نقل مکانی کرنے والے پُرامن معصوم شہریوں اور شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کے بعد مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے غاصب و قابض اسرائیلی فوج کی مسلسل حمایت نے مغرب کی ڈھٹائی‘ بے حیائی اور انسانیت دشمنی کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ بچوں‘ خواتین اور معصوم شہریوں کے قتلِ عام اور عالمی جنگی معاہدوں و قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں نے مغرب کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی حقیقت سامنے آچکی ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک بچوں اور عورتوں سمیت 4000سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمی فلسطینیوں کی تعداد 13ہزار 300سے تجاوز کر چکی ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل کے غزہ میں ہسپتال پر بمباری کے نتیجے میں 500سے زائد فلسطینی شہید ہوئے‘ اس حملے میں کئی بچے بھی شامل تھے جن میں ایک بچی حیا بھی تھی جس کی دلخراش وصیت سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ شہید فلسطینی بچی نے سادہ کاغذ پر لکھا کہ میری پاکٹ منی سے 45شیکل میری ماں کو دیے جائیں۔ پانچ شیکل میرے بھائی ہاشم اور پانچ بہن ذینہ کو دیے جائیں۔ پانچ شیکل دادی اور پانچ پھوپھی کو دیے جائیں۔ حیا نے وصیت کی کہ اس کے جوتے غریب بچوں کو دیے جائیں۔ شہید تو ویسے ہی جنت کے حقدار اور حساب و کتاب سے مستثنیٰ ہوتے ہیں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ننھی حیا نے اپنی اس وصیت کے بعد جنت الفردوس میں بھی اپنے درجات بلند ترین کر لیے ہیں‘ یقینا ایسی وصیت بہترین تربیت اور ایمانِ کامل کے نتیجے میں ہی لکھی جا سکتی ہے کیونکہ اس سے ایک تو اس ننھی پری کی شہادت کے لیے آرزو اور دوسرا اس کے پختہ ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔ وصیت کی تحریر سے اس کی اپنے خاندان سے بے پناہ محبت بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اپنے اردگرد ان غریب بچوں کا احساس بھی عیاں ہے جو مصیبت کی اس گھڑی میں ننگے پائوں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ کاش ان غریب بچوں کے نام پر کھربوں ڈالر چندہ اکٹھا کرنیوالے عالمی اداروں کو بھی ان کا احساس ہوتا تو سب سے پہلے وہ فوری جنگ بندی سے کراتے‘ اسرائیل کو ہسپتالوں‘ سکولوں اور محفوظ پناہ گاہوں پر بمباری سے روکتے اور پھر ان نہتے فلسطینیوں کو خوراک و ادویات سمیت امداد پہنچاتے۔ حیا کی وصیت نے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں اور ان مغربی طاقتوں کے چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیا ہے۔
غزہ کے محصور اور مظلوم فلسطینیوں کو بدستور اسرائیلی جنگی جرائم کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے ہسپتال کے بعد قدیم ترین آرتھوڈاکس چرچ پر بھی فضائی حملہ کیا ہے جس میں پناہ لینے والے 10فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ فسلطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ پٹی پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں 4 ہزار 137 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمی فلسطینیوں کی تعداد 13ہزار 300سے تجاوز کر گئی ہے۔ خان یونس میں چھ گھروں پر میزائل حملوں میں 40فلسطینی شہید اور 60سے زائد زخمی ہو گئے۔ غزہ کی طرح مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مغربی کنارے کے نورالشمس پناہ گزیں کیمپ پر حملے میں 12فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی بمباری سے معصوم بچوں کی شہادتوں پر الاقصیٰ ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر کا صبر جواب دے گیا۔ خاتون ڈاکٹر اسرائیلی فوج کی بربریت دیکھ کر میڈیا کے سامنے رو پڑیں اور دہائیاں دیتی نظر آئیں۔ ان کی دہائیوں نے دل دہلا دیے۔ خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ ان ننھی کلیوں کا کیا قصور تھا‘ انہوں نے کیا گناہ کیا تھا۔ کیا کریں‘ کہاں جائیں‘ ان معصوموں کی میتوں کو کہاں رکھیں؟ یہاں تو دو گز جگہ بھی نہیں بچی۔ غزہ کے ہسپتالوں میں جگہ اور دوائیں ختم ہونے لگیں۔ زخمیوں کو بے ہوش کیے بغیر آپریشن ہونے لگے۔ وزارتِ صحت کے ترجمان نے بتایا کہ جن کے جینے کی اُمید باقی ہے ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ باقیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ صحن میں‘ آپریشن تھیٹرز میں اور ایمرجنسی رومز کی زمین پر سینکڑوں افراد پڑے ہیں‘ اکثریت معصوم بچوں کی ہے۔
امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کی حمایت ملنے کے بعد کسی بھی وقت غزہ پر اسرائیلی فوج کے زمینی حملے کا امکان ہے۔ غزہ میں زخمیوں سے بھرے ہسپتال پر بمباری کے بعد اسرائیل نے القدس ہسپتال تباہ کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔ عالمی ادارۂ صحت نے اسرائیلی دھمکی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ القدس ہسپتال خالی کرنے کے مبینہ احکامات پریشان کن ہیں۔ مریضوں سے بھرے ہسپتال کو محفوظ طریقے سے خالی کرنا ممکن نہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مطالبہ کیا ہے کہ عام شہریوں اور مریضوں کے تحفظ کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔ ادھر مصر کی رفح کراسنگ سے غزہ میں امدادی ٹرک داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ رفح کراسنگ سے غزہ جانے والے 20 ٹرکوں میں دوائیں‘ طبی آلات اور خوراک شامل ہے لیکن یہ 20 ٹرک وہاں خوراک اور ادویات کی ضرورت کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ابھی مزید بہت زیادہ امداد کی ضرورت ہے جس کیلئے عالمی برادری کو فوری کردار ادا کرنا ہوگا۔ دوسری جانب فلسطین کیلئے اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں سات اکتوبر سے اب تک عملے کے 17 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جوکہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ امدادی اداروں کو اگر اسی طرح نشانہ بنایا گیا تو پھر مستقبل میں امریکہ اور برطانیہ سمیت ان مغربی ممالک میں بھی امدادی کارکنان اور رضاکار کام کرنے سے انکار کر سکتے ہیں لہٰذا اب بھی نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کو چاہئے کہ اسرائیل کو غیرانسانی وغیر قانونی کارروائیوں سے روکا جائے ورنہ کل خود اسی آگ میں جھلس جائیں گے۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے القسام بریگیڈ نے دو امریکی شہریوں کو رہا کر دیا ہے۔ رہائی پانے والی امریکہ سے تعلق رکھنے والی ماں اور بیٹی کا اہلِ خانہ سے رابطہ ہو گیا۔ رہائی پانے والوں میں 59سالہ جوڈتھ تائی رانان اور ان کی بیٹی 17سالہ نیٹالی رانان شامل ہیں۔ اس حوالے سے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ 200افراد میں سے یہ پہلی رہائی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں قطر کے تعاون اور مدد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تمام یرغمالیوں کو فوری بغیر شرائط کے رہا کیا جائے۔ اب بھی 10امریکی لاپتہ ہیں جن میں سے بعض اب بھی یرغمال ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قطر نے امریکی شہریوں کی رہائی کیلئے تو کردار ادا کیا لیکن اسرائیل اور امریکہ کو بمباری روکنے کیلئے مجبور کیوں نہ کیا؟ ایک طرف امریکیوں کو اپنے چند یرغمالی شہریوں کی حفاظت اور رہائی کی اتنی فکر ہے اور دوسری طرف انہوں ہزاروں شہید ہونے والے معصوم و بے گناہ شہریوں‘ ہزاروں زخمیوں اور لاکھوں بے گھر ہونے والے معصوم بچوں‘ عورتوں اور بزرگوں کا خیال کیوں نہیں آتا؟
ننھی حیا کی وصیت بلاشبہ اسلام کی امن پسندی اور انسانیت دوستی کی روشن مثال اور امریکہ و برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور قتلِ عام کی حمایت‘ اسلام مخالف قوتوں کے غیرانسانی رویوں اور نام نہاد انسانی حقوق کے دعوؤں کو بے نقاب کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ یہی مغرب کا اصلی مکروہ چہرہ ہے۔