بس! اب بہت ہو گیا

پاکستان میں گزشتہ چوبیس خودکش حملوں میں سے چودہ دھماکے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں نے کیے۔ 9 مئی کو حساس تنصیبات اور اداروں پر حملوں کے واقعات میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ملوث تھے۔ پاکستان چالیس برسوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی خدمت کر رہا ہے، اس دوران کئی بار ہمسایہ ملک میں امن قائم ہوا اور آج کل بھی وہاں حالات بہتر ہیں لیکن افغان پناہ گزین اپنے حقیقی وطن واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اس وقت تین قسم کے افغان شہری پاکستان میں موجود ہیں۔ ایک وہ جو قانونی طور پر مقیم اور بطور پناہ گزین رجسٹرڈ ہیں۔ دوسرے وہ جو افغان پاسپورٹ پر پاکستان کا باقاعدہ ویزا لے کر یہاں آئے ہیں اور تیسرے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے اور یہاں مقیم ہو جانے والے افراد ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ پاکستانی حکومت کا واضح اعلان ہے کہ قانونی طورپر رہنے والے افغانوں سمیت کسی غیرملکی کو نہیں نکالا جائے گا جبکہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک ہر حال میں پاکستان چھوڑنا ہو گا۔ حکومت کا یہ فیصلہ اور اعلان بالکل جائز اور موجودہ ملکی حالات کے مطابق ناگزیر ہے کیونکہ جرائم میں ملوث غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو چھوٹ دے کر کب تک اپنا امن و سکون اور معیشت کو تباہ کیا جاتا رہے گا اور کب تک ان کے سبب عوام بحرانوں کا سامنا کرتے رہیں گے؟
حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کیلئے ایک اور فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت یکم نومبر سے فارن ایکٹ کے تحت بے دخلی آرڈر جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے فارن ایکٹ 1946ء کا سیکشن 3 نافذ کرنے کی منظوری دی ہے اور وزارتِ قانون کی سفارش پر وزارتِ داخلہ نے وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری حاصل کی ہے۔ فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی گرفتاری، حراست اور بے دخلی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سنگین جرائم میں انڈر ٹرائل اور سزا یافتہ افغان شہریوں کو بے دخل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی سزا پوری کر سکیں؛ تاہم معمولی جرائم میں انڈر ٹرائل اور سزا یافتہ افغان شہریوں کو بے دخل کر دیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس، پراسیکوشن اور جیل انتظامیہ کو خصوصی اختیار دینے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ یکم نومبر سے متعلقہ اتھارٹیز افغان شہریوں کو گرفتار، زیر حراست رکھنے اور بے دخل کرنے کی مجاز ہوں گی۔ پنجاب سے گرفتار افغانوں کو بے دخلی کے لیے راولپنڈی میں قائم مرکز میں منتقل کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا سے گرفتار افراد کو نوشہرہ اور چمکنی مرکز، بلوچستان سے گرفتار افراد کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ مرکز جبکہ سندھ سے گرفتار افراد بے دخلی کیلئے کراچی ون اور ٹو مرکز میں منتقل کیے جائیں گے۔ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے پاس 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کے علاوہ اب کوئی آپشن نہیں۔
آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ میں ٹیم پاکستان کے خلاف فتح کے بعد افغان ٹیم کے رویے اور ماضی کے تجربات کے بعد اس بات کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اب افغان باشندے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مزید رہیں، وہ یہاں دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں بھی ملوث ہوں اور پھر احسان فراموشی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے پاکستان کے دشمن ملک میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف باتیں کریں۔ پاکستان کے خلاف میچ میں پلیئر آف دی میچ افغان بلے باز ابراہیم زدران نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان کی تمام قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ پاکستان نے چار دہائیوں سے زائد عرصہ تک افغانوں کو اپنے ملک میں مہمان بنائے رکھا ہے مگر افغان بلے باز ابراہیم زدران نے پاکستان کی تمام قربانیوں کو فراموش کر کے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا۔ میچ کے اختتام پر ہونے والی پریزنٹیشن میں افغان اوپنر کا کہنا تھا کہ وہ اپنا ایوارڈ ان افغان مہاجرین کے نام کرتے ہیں جنہیں پاکستان سے واپس افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔ پاکستان کے خلاف جیت پر کابل میں بھی اس طرح جشن منایا گیا جیسے کسی روایتی دشمن کو شکست دی گئی ہو۔ ایک روزہ میچ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف افغانستان کی کامیابی پر بھارت میں بھی بھرپور انداز میں جشن منایا گیا جبکہ افغانستان میں جیت کی خوشی میں افغان شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور مختلف علاقوں میں آتش بازی اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔
پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر 2023ء تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جس میں اب چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں افغان باشندوں کی بڑی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم ہے جو دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث پائی گئی ہے؛ تاہم پاکستانی حکام کے مطابق قانونی دستاویزات رکھنے والے افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کو پاکستان سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ دو روز قبل اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے افغان پناہ گزینوں کی برطانیہ میں آبادکاری کیلئے خصوصی پروازیں چلانے سے متعلق برطانوی ہائی کمیشن کے وفد اور سول ایوی ایشن حکام کی ملاقات ہوئی۔ برطانوی ہائی کمیشن کے وفد کی قیادت پولیٹکل قونصلر ذوئی ویئر نے کی جبکہ سول ایوی ایشن کے وفد کی قیادت ڈائریکٹر سکیورٹی ایئر کموڈور (ر) شاہد قادر نے کی۔ ملاقات میں فریقین نے افغان پناہ گزینوں کی برطانیہ منتقلی کے لیے پروازوں کے حوالے سے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے غیر ملکی افواج کے ترجمانوں اور سہولت کاروں کی بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے جن کی چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے اسلام آباد سے برطانیہ روانگی آج (26 اکتوبر) سے شروع ہو گی اور ہر ہفتے ایک خصوصی طیارہ افغان پناہ گزینوں کو برطانیہ لے کر جائے گا اور یہ آپریشن دسمبر تک جاری رہے گا۔
اُدھر طورخم سرحدی گزرگاہ پر الیکٹرانک ویزا سسٹم نصب کر دیا گیا ہے۔ ای ویزا سسٹم سے غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے افراد کو روکنے میں مدد مل سکے گی۔ بارڈر پر ویری فکیشن سسٹم کو امیگریشن ہال سے زیرو پوائنٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔ اب افغانستان سے قانونی طریقے سے آنے والے افراد کیلئے ای ویزا کے ذریعے پاکستان آنا کافی آسان ہو جائے گا اور وہ بہ آسانی پاکستان آسکیں گے؛ تاہم غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے غیر ملکیوں کی روک تھام بھی اس سے ممکن ہو سکے گی۔ ایک روز قبل کمشنر راولپنڈی کی زیرصدارت ایک خصوصی اجلاس میں بتایا گیا کہ اب تک کے جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق ڈویژن بھر میں مقیم غیرقانونی غیر ملکیوں کی تعداد تقریباً 24 ہزار سے زائد ہے‘ جن میں سے ضلع اٹک میں 10 ہزار‘ ضلع چکوال میں 1200‘ ضلع جہلم میں 800 اور ضلع راولپنڈی میں 12 ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے پاس اپنی شناخت کا کوئی ڈاکیومنٹ بھی موجود نہیں ہے۔ کمشنر راولپنڈی نے ہدایت کی کہ چاروں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز اپنے اپنے اضلاع میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کی حتمی لسٹ دیگر سکیورٹی اداروں کیساتھ مشترکہ جانچ پڑتال کرنے کے بعد کمشنر آفس کو جمع کرائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کی نشاندہی، وہاں ان کے رکھنے، کھانے پینے اور انہیں طورخم بارڈر تک پہنچانے کے تمام تر انتظامات فوری مکمل کیے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنے افغان بہن بھائیوں کو پناہ دینے اور ان کی ہر قسم کی مدد کرتے کرتے خود غیر ملکی امداد اور قرضوں کے بدترین بحران میں پھنس چکا ہے جبکہ آج بھی یہاں قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو مہمان بنانے سے کوئی انکار نہیں ہے۔ حکومت اور قومی ادارے صرف ان غیر قانونی طور پر مقیم ان غیر ملکیوں کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں جن کی اکثریت یہاں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں اور قتل و غارت گری جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ یہ فیصلہ بالکل صائب اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، لہٰذا اب بہت ہو گیا، اس فیصلے پر سو فیصد عملدرآمد ہو جانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں