پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو پاکستان چھوڑنے کے لیے دی گئی حتمی ڈیڈ لائن میں اب صرف ایک روز باقی ہے اور کل رات یہ مہلت ختم ہو جائے گی۔ دوسری جانب افغان شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اور قومی ادارے اس حوالے سے بالکل سنجیدہ اور مخلص ہیں؛ البتہ یہ بھی درست ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی نشاندہی، شناخت اور انخلا کا عمل قدرے سست روی کا شکار ہے اور اس کی وجہ بادی النظر میں یہی سمجھ آتی ہے کہ جو سرکاری ملازمین اور محکمے غیر قانونی طور پر پاکستان داخل ہونے والے غیر ملکی باشندوں کو جعلی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات تیار کرکے دینے میں ملوث ہیں، شاید اب بھی وہی ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں یا پھر مبینہ طور پر رشوت لے کر مکمل اور درست نشاندہی نہیں کی جا رہی، کیونکہ جس طرح ہمارے شہروں اور دیہی علاقوں سمیت ملک بھر میں غیر قانونی افغانوں کی بھرمار ہے اس حساب سے ان کی نشاندہی ابھی تک آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہو سکی۔ سرکار کا کہنا ہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کے ساتھ کاروبار کرنے یا انہیں پناہ دینے پر بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز مزید 5046 افغان باشندے اپنے ملک واپس گئے، اس طرح اب تک 81 ہزار 974 افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے مختلف آبادیوں میں سکیننگ اور غیر ملکی افراد کی میپنگ آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے، غیر ملکی افراد کے پاس موجود دستاویزات کی جانچ پڑتال کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں دستاویزات نہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ غیر قانونی طور پر مقیم گرفتار غیر ملکیوں کے لیے ہولڈنگ ایریاز اور عارضی کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
سیکورٹی اداروں کی جانب سے غیر ملکیوں کی بے نامی جائیدادوں کی شناخت کا عمل بھی جاری ہے، ملک بھر میں غیر قانونی تارکین وطن کے بے نامی اثاثوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ یکم نومبر سے فارن ایکٹ کی دفعہ تین ملک گیر سطح پر نافذ ہو گی اور جائیدادوں کو عدم فروخت پر انہیں ضبط کر کے نیلام کیا جائے گا۔ تارکین وطن کی افغانستان اور ایران واپسی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے حکومتِ بلوچستان نے مزید تین کراسنگ پوائنٹس کھول دیے ہیں، بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات کے مطابق یہ کراسنگ پوائنٹس قلعہ سیف اللہ، قمر الدین کاریز اور ضلع چاغی میں براچہ نور وہاب کے علاقوں میں کھولے گئے ہیں تاکہ افغان اور ایرانی بلوچ تارکین وطن کو 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن تک ان کے آبائی وطن بھیجنے میں مدد مل سکے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں غیر قانونی تارکین وطن کو خیبر پختونخوا کراسنگ پوائنٹس سے واپس بھیجا جائے گا، ڈیڈ لائن کے بعد حکومت صوبے بھر سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کے تعاون سے اپنے پلان کو پوری قوت کے ساتھ نافذ کرے گی۔ رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کا ڈیٹا اَپ ڈیٹ اور محفوظ کیا جائے گا، سندھ اور پنجاب سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو مکمل سکیورٹی دی جائے گی اور انہیں ہولڈنگ سنٹرز میں رکھا جائے گا۔ کوئٹہ میں حاجی کیمپ کو ہولڈنگ سنٹر میں تبدیل کیا گیا ہے اور سرحدی شہروں چمن اور پشین میں اضافی سنٹرز قائم کیے گئے ہیں، ضرورت پڑنے پر اس طرح کے مزید سنٹرز دیگر علاقوں میں قائم کیے جا سکتے ہیں۔ غیر قانونی تارکین کو خوراک اور دیگر بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی۔ ایک خبر کے مطابق چمن اور سپن بولدک سے روزانہ 40 سے 50 ہزار افراد پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاک‘ افغان سرحد عبور کرتے ہیں۔ حکومت کو اس صورتحال کا بھی نوٹس لینا ہو گا۔ چمن بارڈر کے ذریعے 16 ہزار سے زائد افغان پہلے ہی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپس جا چکے ہیں۔ حکومت نہ صرف غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس بھیج رہی ہے بلکہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ایرانی بلوچ، نائیجیرین، بوسنیائی، بنگلہ دیشی، بھارتی اور دیگر غیر ملکیوں کو بھی ان کے آبائی ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے۔ جو لوگ اپنے گھر اور دکانیں غیر قانونی تارکین کو کرائے پر دیتے ہیں جلد ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی اور غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی غیر قانونی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔
حکومت پنجاب نے غیر قانونی تارکین وطن کی جاری میپنگ میں صوبے میں 33 ہزار غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی ہے، جن میں زیادہ تر افغان شہری ہیں۔ بظاہر یہ تعداد یہاں مقیم غیر قانونی افراد کے مقابلے میں بہت کم دکھائی دیتی ہے لہٰذا حساس اداروں کو اس عمل کی صحیح نگرانی کرنا ہو گی تاکہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کا درست ڈیٹا مرتب ہو سکے اور انہیں واپس بھجوایا جا سکے۔ پنجاب میں 36 ہولڈنگ سنٹر قائم ہیں، اگر غیر قانونی تارکین وطن کل تک رضاکارانہ طور پر ملک نہیں چھوڑتے تو انہیں جبری ملک بدر کر دیا جائے گا۔ ملک بھر میں تقریباً 99 ہزار غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے کچھ کو پنجاب کے ہولڈنگ پوائنٹس میں رکھا گیا ہے۔ یہ ساری صورتحال اس لیے پیش آئی ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ حملوں میں بیشتر میں افغان شہری ملوث پائے گئے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جو پچھلے 24 خودکش دھماکے ہوئے‘ ان میں سے 14 میں حملہ آوروں کی نشاندہی افغان شہری کے طور پر ہوئی۔ ویسے بھی اب افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز نکل چکی ہیں اور وہاں جنگ ختم ہو چکی ہے، اس لیے اب افغان مہاجرین کو واپس اپنے وطن جانا چاہئے۔
ملک میں مافیاز کے خلاف کریک ڈائون کے بعد روپے کی قدر بڑھنے سے پاکستان کا چار ہزار ارب روپے قرضہ کم ہوا ہے، اس کام میں بھی زیادہ تر غیرملکی ملوث تھے۔ اس لیے بھی غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے انخلا کا فیصلہ وقت اور ملک کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ‘ کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں جس کی خاموشی قابلِ گرفت ہے‘ وہ بھی یہ انخلا روکنے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالنے کا عندیہ دے رہا ہے، اس فیصلے پر عملدرآمد سے پاک افغان تعلقات اور رشتے میں دراڑیں بھی آ سکتی ہیں مگر قومی اداروں کو چاہئے کہ اپنے اس فیصلے پر قائم رہیں اور اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ پاکستان میں اکثر افغان شہری جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، منشیات اور کلاشنکوف کلچر انہوں نے متعارف کرایا، ہمارا کلچر انہوں نے تباہ کر دیا، لہٰذا اب یہ سب ختم ہونا چاہیے۔ ویسے بھی انہیں ان کے آبائی ملک واپس بھیجا جا رہا ہے تو اس میں انسانی حقوق کی بات کہاں سے آ گئی۔ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں لاجسٹکس کی وجہ سے توسیع کی جا سکتی ہے لیکن انہیں کیمپوں سے باہر آزاد گھومنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔
حالیہ عرصے میں دہشت گردی کی شرح میں واضح اضافہ ہوا ہے، ایک روز قبل بھی جنوبی وزیرستان میں دیسی ساختہ بم کا دھماکا ہوا جس میں دو فوجی جوان شہید ہو گئے۔ دھماکا ضلع سرویکائی کے علاقے میں ہوا جہاں دیسی ساختہ بم نصب کیا گیا تھا۔ جب تک غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کا عمل مکمل نہیں ہوتا، اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا عمل شروع ہونے سے ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات نظر آئے ہیں لیکن جب تک اس پلان کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا، اس وقت تک معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکے گی۔
غیر قانونی طور پرمقیم غیر ملکیوں کے پاکستان سے واپس جانے کے لیے دی گئی ڈیڈلائن کل ختم ہو جائے گی۔ اگر نیک نیتی سے غیرقانونی تارکین وطن کی صحیح نشاندہی کی جائے اور انہیں جلد ازجلد ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے تو یقینا نہ صرف پاکستان میں امن قائم ہوگا بلکہ مہنگائی اور بیروزگاری میں بھی بڑی حدتک کمی آئے گی لہٰذا اب مزیدکسی قسم کی لچک یا مہلت کی گنجائش نہ دی جائے اور جس کام کا بیڑہ اٹھایا گیا ہے، اسے حتمی انجام تک پہنچایا جائے۔