فلسطین پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری امریکہ سمیت مغربی طاقتوں اور انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار عالمی اداروں کی بے حسی کا ٹھوس ثبوت ہے کیونکہ جس طرح صہیونی طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہیں‘ معصوم و بے گناہ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور جس طرح امریکہ، برطانیہ، فرانس و جرمنی سمیت مغربی ممالک اس قتل وغارت گری کے باوجود اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان معاشروں میں انسانیت کی کوئی قدر و اہمیت نہیں اور جمہوریت اور انسانی حقوق کا واویلا محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں بھی انہی طاقتوں کے زیر اثر ہیں جو صرف مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور انہیں بدنام کرنے تک ہی محدود ہیں۔ بھارت ہو، اسرائیل ہو، میانمار ہو یا کوئی دوسرا ملک، جب اور جہاں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی ہے‘ یہ ممالک اور عالمی ادارے مجرمانہ خاموشی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس وقت غزہ اسرائیل کی مسلسل اور وحشیانہ بمباری، لامحدود تباہی اور اَن گنت شہادتوں کے باعث فلسطینیوں بالخصوص بچوں کا ایک قبرستان بن چکا ہے۔ معصوم بچوں کی بڑی تعداد میں شہادتوں کی وجہ بمباری کے ساتھ پانی، خوراک اور ادویات کی قلت بھی ہے۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بچوں کی مزید اموات میں ایک اور بڑا سبب بچوں کے جسموں میں پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) بن سکتی ہے۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہید ہونے والے فلسطینی شہریوں میں نصف سے زائد بچے شامل ہیں یعنی اب تک چار ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں جن میں سے سینکڑوں بچوں کی عمر ایک سال سے بھی کم تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق غزہ پہ مسلسل اور اندھا دھند اسرائیلی بمباری کے سبب اوسطاً ہر دس منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ یونیسیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر روز 420 سے زائد بچے یا تو اسرائیلی بمباری سے شہید ہو رہے ہیں یا پھر شدید زخمی۔ 7 اکتوبر سے جاری اس جنگ میں 23 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے تین چوتھائی زخمی بچے، خواتین اور بزرگ شہری ہیں۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اتنے دنوں کی بمباری سے ہونے والی حد سے زیادہ تباہی کی وجہ سے اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ غزہ میں پانی کی کمی کے عارضے کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کی اموات سے ہو سکتی ہیں۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ براہ راست بمباری کی وجہ سے شہید ہونے والے بچوں کی نسبت پانی کے کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک طرف اسرائیل نے غزہ کو پانی کی سپلائی بند کر رکھی ہے تو دوسری طرف ہر طرح کے سول انفراسٹرکچر کی ٹارگٹڈ تباہی کے سبب پانی کی فراہمی کا نظام بھی تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اب غزہ کی ضرورتوں کے مقابلے میں محض پانچ فیصد ہی پانی باقی ہے۔ یونیسیف کے ترجمان کے مطابق بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد‘ جو پہلے ایک آدھ تھی، پھر درجنوں میں ہوئی، پھر یہ بیسیوں میں تبدیل ہوتی ہوئی سینکڑوں میں چلی گئی، اب یہ اموات ہزاروں میں ہو رہی ہیں جبکہ ہر آنے والے دن ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مسلسل بمباری کے نتیجے میں اسے زمین کا جہنم قرار دیا اور بتایا کہ ہر پانچ منٹ بعد ایک فلسطینی بچہ اسرائیلی بربریت کا شکار ہو رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے بمباری میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور زمینی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ اقوام متحد اور، یونیسیف کے علاوہ متعدد ملکوں نے بھی فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے تاکہ غزہ میں امدادی کارروائیوں کے ذریعے زخمیوں کی جانیں بچائی جا سکیں کیونکہ اب تک دس لاکھ سے زائد بچے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، غزہ میں انسانی بنیادوں پر وسیع امدادی کارروائیوں کی ضرورت ہے مگر وہاں تک رسائی نہ ہونے کے سبب انسانی زندگیوں کو بچانے کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر غزہ میں فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو خوراک، پانی اور ادویات کی قلت کی وجہ سے ایک بڑا انسانی المیہ برپا ہو سکتا ہے۔ سینکڑوں نوزائیدہ بچے ایسے ہیں جن کو انکیوبیٹرز کی ضرورت ہے مگر بجلی نہ ہونے کے سبب ان کی جان بچانی مشکل ہو رہی ہے۔ یہ سب ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری جانب جنیوا میں اسرائیلی سفیر نے الزام لگایا کہ غزہ میں 33 اسرائیلی بچے بھی اغوا کر کے لائے گئے ہیں اور ان میں نو ماہ کی ایک بچی بھی شامل ہے جو اپنی ماں کے ساتھ یرغمال بنائی گئی؛ تاہم اسرائیلی سفیر نے غزہ میں چار ہزار کے لگ بھگ شہید ہونے بچوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
گو کہ اب مسلم ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے لگا ہے لیکن یہ مظلوم فلسطینیوں کی دادرسی کے لیے ناکافی ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے فوری طور پر مشترکہ سخت موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے مسلم ممالک سے صہیونی ریاست کو تیل اور خوراک کی برآمدات روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ممالک صہیونی ریاست کوتیل اور خوراک سمیت تمام برآمدات روکیں، کم از کم اس وقت مسلم ملکوں کو صہیونی ریاست سے معاشی تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک کو غزہ میں جنگ کے جلد خاتمے پر اصرار کرنا چاہیے اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غزہ کی آبادی پر جنگ مسلط کرنے میں کون کون شامل ہے۔ اس میں صرف ناجائز صہیونی ریاست ہی شامل نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کی پشت پناہی اسرائیل کو ہلہ شیری دے رہی ہے۔ صہیونی حکومت اپنے عوام سے بھی جھوٹ بول رہی ہے۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے پاس موجود اپنے جنگی قیدیوں کے بارے میں جو اظہارِ تشویش کر رہے ہیں وہ بھی جھوٹ ہے۔ غزہ پر اسرائیلی فوج کی بمباری اسرائیل کے اپنے یرغمالیوں کو بھی ہلاک کر رہی ہے۔
سلطنت عمان نے اسرائیلی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام سے اسرائیل کی قومی ایئرلائن ایلال کی ایشیائی ممالک کے لیے پروازوں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمان کی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے اسرائیلی پروازوں کو کئی گھنٹے کی تاخیر کا سامنا ہے۔غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کا سلسلہ نہ رکنے پر اردن نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ ادھر متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اسرائیلی حملوں میں زخمی ہونے والے ایک ہزار فلسطینی بچوں کو علاج کے لیے عرب امارات لانے کا اعلان کیا ہے، زخمی فلسطینی بچوں کے اہلِ خانہ کو بھی متحدہ عرب امارات لایا جائے گا اور علاج مکمل ہونے کے بعد انہیں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ اماراتی وزیرِ خارجہ نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی صدر سے رابطہ کر کے زخمی فلسطینی بچوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے طریقہ کار پر گفتگو کی اورغزہ میں شہریوں کے لیے خوراک اور طبی امداد کی ترسیل کی ضرورت پر زور دیا۔
اسرائیل کے حامیوں کی جانب سے بھی اب فلسطینیوں کی نسل کشی پر خدشات کا اظہار سامنے آنے لگا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا کہ ہمیں غزہ میں بمباری سے عام شہریوں خصوصاً بچوں پر ہونے والے تباہ کن اثرات پر گہری تشویش ہے، ہم انسانی بنیادوں پر کچھ وقت کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ امداد پہنچائی جا سکے۔ انہوں نے اسرائیل کے یرغمال شہریوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی بھی ممکن بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا ہم شہریوں کے تحفظ اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی حمایت جاری رکھیں گے۔
اسرائیل کے غزہ پر حملے حماس کو نشانہ بنانے سے زیادہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے اقدامات محسوس ہوتے ہیں۔ اگرچہ غزہ میں معصوم بچوں کی شہادتوں کو بلاتردید جنت الفردوس کی نرسری قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس حوالے سے دنیا کی اجتماعی بے حسی تشویشناک اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔