دنیا کے خوبصورت ترین قدرتی سیاحتی مقامات پاکستان میں موجود ہیں، جن پر معمولی سی توجہ دے کر ہم دنیا بھر کے سیاحوں کو راغب کر سکتے ہیں۔ مختلف ممالک جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نوجوان نسل کو ٹورازم کی تعلیم دے کر سیاحت کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوئے ہیں جبکہ ہم بہترین قدرتی سیاحتی مقامات کے مالک ہو کر بھی ان سے استفادہ نہیں کر پا رہے۔ وطنِ عزیز میں میدان، دریا، صحرا، پہاڑ، جنگل، ندیاں، نالے، آبشاریں، نہریں اور سمندر سمیت ہر طرح کی زمین موجود ہے جہاں گرمی، سردی، بہار اور خزاں جیسے خوبصورت موسم میسر ہیں۔ جس ملک میں ناران، کاغان، گلگت، چترال، سوات، مری، گلیات اور کلرکہارجیسے قدرتی نظاروں سے مالا مال علاقے موجود ہوں، جہاں کشمیر جنت نظیر اپنی مثال آپ ہو، جس کا صرف کراچی ہی کبھی دبئی سے زیادہ بڑا تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا، جہاں وسیع ساحل سمندر کے علاوہ گوادر جیسا ڈرائی پورٹ بھی ہو‘ وہ ملک سیاحت کے حوالے سے یقینا ایک آئیڈیل مقام کا حامل ہے۔ برف باری کا موسم ہو یا بہار کے مہینے‘ پاک سرزمین دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔ ہمارا لاہور شہر ہی تاریخی و ثقافتی اعتبار سے دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کی عدم توجہی سے باغات کا شہر اس وقت دنیا بھر میں آلودہ ترین شہر بن چکاہے۔ اولیا کرام کی سرزمین ملتان سمیت ملک میں ہزاروں بزرگوں اور اولیا کے مزارات ہیں جبکہ سکھوں، ہندوئوں اور بدھ مت کے اہم مذہبی مقامات بھی پاکستان میں بکثرت موجود ہیں، پھر سوال یہ ہے کہ ہم نے آج تک سیاحت کو اپنی پہلی ترجیح کیوں نہیں بنایا؟ ہماری حکومتوں کو تو اس پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ ہمارے پاس قدرتی حسن سے مالامال سیاحتی مقامات ہیں، کاش! ہم نے اس طرف بھی توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا۔
اگر مذہبی سیاحت کی بات کی جائے تو پاکستان میں نہ صرف سکھوں بلکہ ہندوئوں اور بودھوں کے کئی اہم مذہبی مقامات بھی موجود ہیں جہاں ہر سال دنیا بھر سے یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے کرتارپور راہداری قائم کرکے دنیا بھر کی سکھ برادری کے دل جیت لیے۔ ہزاروں سکھ یاتری اپنے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے یہاں آتے ہیں، اگر حکومت اس طرف معمولی سی توجہ دے تو سکھ برادری کی یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے اور جب سال کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر سے سکھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آئیں گے تو یقینا مقامی معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔ اگر یاتریوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ مری، ناران، کاغان، سوات، چترال، گلگت، گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات کی سیر و تفریح پر بھی راغب کیا جائے اور ان علاقوں میں جانے کی اجازت بھی دی جائے تو اس سے ہماری ہوٹل انڈسٹری، ٹریول اینڈ ٹور ازم انڈسٹری اور ہینڈی کرافٹ سمیت دیگر مقامی کاروباروں کو ترقی اور وسعت ملے گی اور اس سے ملک میں کثیر زرمبادلہ بھی آئے گا۔
پنجاب کی نگران صوبائی حکومت نے مذہبی سیاحت پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ''سکھ یاترا بکنگ پورٹل‘‘ کا افتتاح کیا گیا ہے۔ سکھ یاتری سال میں چار مرتبہ مختلف مذہبی رسومات کے سلسلے میں پاکستان آتے ہیں، اب اس پورٹل سے انہیں بہت آسانی ہو گی۔ سکھ یاترا بکنگ پورٹل کے ذریعے دنیا بھر سے سکھ یاتری آن لائن ہوٹل بکنگ کی سہولت حاصل کر سکیں گے‘ پورٹل سے آمد و رفت کے لیے گاڑی کا انتخاب بھی کیا جا سکے گا‘ سکیورٹی سروسز ہائر کرنا بھی ان کے لیے ممکن ہو سکے گا جبکہ ٹورز کے دوران سکھ یاتریوں کو وی آئی پی کا درجہ حاصل ہو گا۔ پنجاب میں مذہبی ٹورازم کے فروغ کے لیے ٹورازم پولیس بھی قائم کی جائے گی۔ اس سے قبل پنجاب میں مری میں ٹورازم سکواڈ کام کر رہا ہے جو سیاحوں کی سہولت اور رہنمائی کیلئے خدمات سرانجام دے رہا ہے، یہ تجربہ تمام سیاحتی مقامات پر کیا جا سکتا ہے تاکہ سیاحوں کو کسی قسم کی مشکلات یا مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مجھ پر سیاحت کی اہمیت اور افادیت اس وقت آشکار ہوئی جب 2016ء میں ایک سپورٹس ایونٹ پر ویتنام جانے کا موقع ملا۔ ویتنام جانے کے لیے جب ایئرپورٹ جا رہا تھا تو اس ملک کے حوالے سے یہی معلوم تھا کہ یہ ملک ایک طویل عرصہ تک امریکی جنگ کا شکار رہا ہے‘ جس کی بنا پر تاثر ذہن میں راسخ ہو چکا تھا کہ شاید افغانستان کی طرح یہ بھی جنگ سے تباہ حال خطہ ہوگا جہاں طویل جنگ کے نتیجے میں کھنڈرات ہی ملیں گے، جنگ کی تباہ کاریوں سے تھکی ہاری قوم تعلیم و تربیت سے بھی عاری ہو گی اور اس کا رہن سہن انتہائی سادہ ہو گا۔ شہری آبادی شاید پسماندگی کا شکار ہو گی اور معیشت کا برا حال ہونے کی وجہ سے بچہ بچہ مقروض ہو گا۔ صحیح سلامت عمارت قسمت ہی سے نظر آئے گی اور ویتنامی قوم غربت کی لکیر سے بہت نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گی۔ جب تھائی لینڈ سے آگے ویتنام ایئر کے جہاز میں بیٹھے تو ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملی کیونکہ اس جہاز کی سیٹوں سے تو ہماری انٹرسٹی بس سروس زیادہ آرام دہ تھی، لیکن جب سمندر کنارے بسائے گئے دانانگ شہر میں اترے تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید جہاز نے واپس تھائی لینڈ کے کسی جدید ترین شہر میں اتار دیا ہے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لیے نکلے تو راستے میں دیکھا کہ اس چھوٹے سے شہر میں تقریباً ایک ہزار ملٹی سٹوری فور اور فائیو سٹار ہوٹل موجود تھے۔ ہماری موٹروے سے زیادہ کشادہ اورصاف ستھری سڑکیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فرفر انگریزی بولتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایشیا بھر سے آئے وفود کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ذہن سے جنگ سے متاثرہ ویتنام کا نقشہ کہیں غائب ہو چکا تھا اور بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ یہ سوال ابھرنے لگا کہ اس قوم نے جنگ کے اثرات کو کیسے زائل کیا اور اتنی جلد ترقی کس طرح کر لی کیونکہ جتنے بڑے اور عالیشان ہوٹل اس چھوٹے سے دانانگ شہر میں تھے‘ اتنے فور اور فائیو سٹار ہوٹل تو پورے پاکستان بلکہ پورے برصغیر میں بھی نہیں ہوں گے۔
ایئر پورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے اپنی ٹیم کی میزبان (رضاکار) لڑکیوں سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو پہلی فرصت میں یہ سوال پوچھا جس پر انہوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے سیاحت کو قومی صنعت کا درجہ دے رکھا ہے اور یہاں نوجوانوں کی اکثریت ٹورازم سے متعلقہ مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے تاکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی خدمت کر سکے۔ ویتنامی نوجوانوں کا اخلاق، برتائو اور ان کا قومی جذبہ دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ جو ملک جنگ سے تباہ حال ہے‘ اس کے باشندے کس قدر محنت سے اپنے ملک میں سیاحت کے لیے کشش پیدا کر رہے ہیں، یہی جنگ سے تباہ حال اس ملک کی تعمیر و ترقی کا اصل راز تھا۔
دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑی تعدادپہلے پاکستان آتی تھی مگر پھر دہشت گردی کے باعث یہ سلسلہ کم ہوا؛ تاہم اب یہاں امن بھی ہے اور جدید سہولتیں بھی میسر ہیں۔ اگر ویتنام جیسا ملک صرف سیاحت کے شعبے سے ترقی کر سکتا ہے تو پاکستان جیسا بہترین لینڈ سکیپ اور دنیا کے ہر موسم سے مزین ملک کیونکر سیاحت کے حوالے سے منفرد مقام حاصل نہیں کر سکتا؟ پنجاب حکومت نے سکھ یاترا بکنگ پورٹل کا افتتاح کرکے مذہبی سیاحت کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے جو ایک خوش آئند اور مثالی اقدام ہے۔ ہندو اور بودھ یاتریوں کو بھی اسی طرح راغب کرنا چاہیے۔ ملک بھر میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے ہی ہم پاکستان میں ٹورازم انڈسٹری کو منافع بخش بنا سکتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے آن لائن پورٹل جیسے اقدامات سے دنیا بھر کی سکھ برادری کو متوجہ کرنے اور انہیں پاکستان آنے پر راغب کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یقینا اس سے نہ صرف وطن عزیز کا سافٹ امیج بحال ہو گا بلکہ اس سے دیگر سیاح بھی متوجہ ہوں گے اور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔