اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور آئینی طریقے سے انتقالِ اقتدار کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت وجود میں آ گئی۔ یوں حکومت اور حکمران تو تبدیل ہو گئے لیکن ملک کے سیاسی و معاشی حالات میں کوئی بہتری نہ آ سکی اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتی رہیں۔ اس دوران سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت مکمل ہوئی اور وزیراعظم شہباز شریف نے 24 نومبر 2022ء کو جنرل سید عاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعیناتی کی منظوری دی۔ 29 نومبر 2022ء کو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان جنرل سید عاصم منیر کے سپرد کی اور وہ پاک فوج کے 17ویں سربراہ بن گئے۔ جب انہوں نے سپہ سالار کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت وطن عزیز سنگین بحرانوں سے دوچار تھا۔ اس سے ایک سال پہلے امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہو چکی تھی، سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر اور معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، پاکستانی کرنسی کی قدر میں تقریباً 76 فیصد کمی آ چکی تھی، سمگلنگ عروج پر تھی ، تجارت ٹھپ اور سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ چکا تھا، برآمدات میں کمی آ چکی تھی جبکہ درآمدات کے لیے ڈالرز دستیاب نہیں تھے۔ اگرچہ پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے متعدد اقدامات کیے لیکن بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی گئے؛ تاہم نئی عسکری قیادت نے دانشمندی، فہم و فراست اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر محض ایک سال کے قلیل عرصے میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو ظاہر و باہر ہیں۔ حکومت کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی گئیں، ادارے میں احتساب کے عمل کو مثالی بنایا، مافیاز کے خلاف کریک ڈائون کیا، غیر قانونی پناہ گزینوں کے انخلا کو یقینی بنایا، بین الاقوامی سرحدوں پر سمگلنگ کا خاتمہ کیا، سول حکومت کے ساتھ مل کر زراعت میں جدت لانے اور بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مثبت اقدامت کیے اور دوست ممالک سے سفارتی تعلقات کو بہتر کیا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ایک سالہ دور میں وطن عزیز کے مایوسی سے امیدِ نَو کے سفر کے لیے کیے گئے ٹھوس اقدامات کا تذکرہ کرنے سے پہلے قارئین کے لیے ان کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر حافظِ قرآن ہیں اور انہوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت مکمل کی۔ بعد ازاں پاک فوج کی فرنٹیئر فورس (ایف ایف) رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ 2014ء میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز تعینات ہوئے اور 2017ء میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں اکتوبر 2018ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا۔ جنرل عاصم منیر جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ کے عہدے پر تعینات ہوئے، اکتوبر 2021ء سے آرمی چیف بننے تک جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جنرل سید عاصم منیر کو دوران تربیت اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔
جنرل سید عاصم منیر نے جب پاک فوج کے سپہ سالار کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو پاکستان سنگین مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا تھا، سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، امن و امان کی دگر گوں صورتحال کے باعث غیر یقینی کے بادلوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، پاکستانی کرنسی تنزلی کے سفر پر گامزن تھی، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ آج سے ایک سال قبل ملک کے ڈیفالٹ کی خبریں گلی کوچوں اور چوک چوراہوں سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک‘ ہر جگہ سننے کو مل رہی تھیں۔ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن سوشل میڈیا کے ذریعے مایوسی اور بدگمانی میں اضافہ کر رہا تھا؛ تاہم ریاست بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی تھی بلکہ آرمی چیف کی قیادت میں پاک فوج نے مایوسی کے سفر کو مستحکم پاکستان کی منزل کی جانب گامزن کرنے کا تہیہ کیا۔
گزشتہ روز نئی عسکری کمان کو قیادت سنبھالے ایک سال مکمل ہوا اور آج پاکستان کے پاس بتانے کیلئے بہت کچھ ہے، ملکی معیشت سے کھلواڑ کرنے والے سمگلنگ مافیا پر ریاست نے ایسا ہاتھ ڈالا جو کسی کے گمان میں نہ تھا، ڈالر کی قدر میں تاریخی کمی اور اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی رکنے کے بعد عام آدمی کی زندگی پر گہرا اثر پڑا ہے۔ جنرل سید عاصم منیر کے ایک سالہ دور میں پاکستان کی ڈوبتی معیشت، زر مبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے کیلئے سپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فسیلی ٹیشن کونسل کا قیام پاکستانی تاریخ کا ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوا جس نے صرف چند ماہ کے قلیل عرصہ میں پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دوست ممالک کی جانب سے 60 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری اب زیادہ دور نہیں۔ ایک برس کے دوران پاکستان میں زراعت کے شعبے میں بھی انقلاب برپا ہونے کی امیدیں روشن ہو گئی ہیں، جس کے نتائج اب صرف چند ماہ کی دوری پر ہیں۔ پاکستان کی سنجیدہ معاشی پالیسیوں کے باعث آئی ایم ایف نگران حکومت پر بھی اعتماد کرنے لگا ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کے باعث سٹاک مارکیٹ نے تمام بیریئرز توڑ دیے اور روز نئے ریکارڈ بننے لگے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان ایک مرتبہ پھر عالمی برادری میں نمایاں ہوا جبکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن کے نتیجے میں 464 دہشت گردوں کو چن چن کر جہنم واصل کیا گیا۔ ملکی معیشت اور امن و امان کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کیلئے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف ایک کٹھن مگر مثبت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا جن کے حیران کن نتائج آ رہے ہیں، صرف چند ہفتوں میں اڑھائی لاکھ سے زائد غیر قانونی غیر ملکی پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
یوں تو ہر برسراقتدار جماعت عوام اور اپوزیشن پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے دعویٰ کرتی ہے کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں، اور یقینا ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ یہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے لیکن آج ایک عام آدمی بھی بہ آسانی اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ موجودہ نگران حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت واقعی ایک پیج پر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ میں نئی تاریخیں رقم ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ روزکاروباری ہفتے کے تیسرے دن کے آغاز پر ہی سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھی گئی اور 100 انڈیکس 61 ہزار کی حد عبور کر گیا۔ کاروبار شروع ہوتے ہی 100 انڈیکس میں 746 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس کے ساتھ ہی 100 انڈیکس 61 ہزار 476 پوائنٹس کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کاروباری ہفتے کے پہلے روز سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس روزانہ بلند ترین سطح عبور کر رہا ہے۔ اگر بات کریں ایک سال قبل کی تو اوسطاً سال 2022ء میں پی ایس ایکس 100 انڈیکس میں 4 ہزار 175 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ 100 انڈیکس کی 2022ء میں بلند ترین سطح 46 ہزار 969 جبکہ کم ترین سطح 39 ہزار 26 تک گری، یوں 100 انڈیکس 7 ہزار 942 پوائنٹس کے بینڈ میں رہا جبکہ اب یہ 60 ہزار کی تاریخی بلند ترین سطح بھی عبور کر چکا ہے۔
آج مایوسی اور ناامیدی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا شروع ہونے کے بعد جرائم میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور اب روز بروز مثبت اشاریے سامنے آ رہے ہیں۔ اب ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ملک میں نئی سرمایہ کاری آئے گی، لوگوں کو نئے روزگار ملیں گے، پاکستانی کرنسی مستحکم اور معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو گی۔ ابھی آرمی چیف کی مدت میں دو سال باقی ہیں‘ ان شاء اللہ عام انتخابات کے بعد بھی ملکی ترقی کا یہ سفر جاری رہے گا۔