پاکستان میں عام انتخابات کے لیے 8 فروری 2024ء کی تاریخ کا اعلان پہلے سے ہو چکا ہے، ملک میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز بھی کر چکی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حتمی حلقہ بندیوں کی فہرستیں بھی جاری کر دی ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں الیکشن کے لیے 42 ارب روپے مختص کیے گئے تھے‘ گزشتہ ہفتے بجٹ میں عام انتخابات 2024ء کے لیے مختص رقم ریلیز نہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے سخت نوٹس لیا تھا جس کے بعد وفاقی وزارتِ خزانہ نے 17 ارب 40 کروڑ روپے جاری کر دیے، اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ وزارتِ خزانہ 10 ارب روپے اس سے قبل ہی جاری کر چکی ہے، اس طرح مجموعی طور پر الیکشن کمیشن کو 27 ارب 40 کروڑ روپے فراہم کیے جا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے شفاف اور پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج سے مدد مانگی ہے اورعام انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کے لیے سیکرٹری داخلہ کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے‘ اس لیے فوج اور سول آرمڈ فورسز سٹیٹک اور بطور کوئیک رِسپانس فورس تعینات کی جائیں۔ مراسلے میں کہا گیا کہ سکیورٹی اہلکاروں کی کمی پورا کرنے کیلئے فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ الیکشن کمیشن نے فوج کی تعیناتی کے حوالے سے آج (7 دسمبر) تک کنفرمیشن کا کہا ہے۔ مراسلے کے مطابق اسلام آباد میں 9 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت ساڑھے 4 ہزار اہلکاروں کی کمی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں 1500 ایف سی، 1500رینجرز اور 1500 آزاد کشمیر پولیس کے اہلکاروں کی ضرورت ہو گی۔ مراسلے کے مطابق پنجاب میں 2 لاکھ 77 ہزار 610 اہلکاروں کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت ایک لاکھ 8 ہزار 5 سو پولیس اہلکار دستیاب ہیں جبکہ ایک لاکھ 69 ہزار 110 اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنا کام روٹین کے مطابق جاری و ساری ہے، انتخابی عمل سے متعلق تمام امور طے پاتے جا رہے ہیں، حلقہ بندیاں بھی فائنل ہو چکی ہیں، حکومت کی طرف سے ضرورت کے مطابق فندز بھی فراہم کر دیے گئے ہیں، الیکشن کے پُرامن انعقاد کے لیے سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کا مراسلہ بھی لکھ دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ آج اس حوالے سے فیصلہ ہو جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک بھر میں جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اور ان کی جماعت نے انتخابی سرگرمیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ جماعت اسلامی کے مطابق 91 فیصد حلقوں میں پارٹی امیدواروں کی ٹکٹوں کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی بورڈ پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کے حتمی انٹرویوز کر رہا ہے اور پارٹی قائد میاں نواز شریف خود بھی امیدواروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی بھی پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے والے سابق ارکینِ اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو دھرا دھڑ نئے مفلر پہنا رہی ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی 10دسمبر سے باقاعدہ انتخابی مہم شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ضیا)، ایم کیو ایم ، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے بھی الیکشن کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے میاں نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت مختلف رہنمائوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن کی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے اور بظاہر الیکشن کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ روز قومی سیاست میں ایک اہم پیشرفت سامنے آئی اور قائدِ مسلم لیگ (ن) گزشتہ روز تقریباً پندہ برس بعد چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔
ان تمام اہم سرگرمیوں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنا کام زور و شور سے کرنے کے باوجود مارکیٹ میں الیکشن کے التوا کی افواہیں تاحال گردش کر رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ وہ درخواستیں ہیں جو الیکشن کے التوا کے لیے دائر کی گئی ہیں؛ تاہم الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں تاخیر سے متعلق تمام خبروں کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں تاخیر سے متعلق خبروں کی پُرزور تردید کرتے ہیں، انتخابی فہرستوں کی تیاری نہ ہونے کی خبر بھی سراسر جھوٹی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ بھی دو روز قبل کہہ چکے کہ انتخابی شیڈول الیکشن سے 54 روز پہلے جاری ہو گا۔ حلقہ بندیاں شائع ہو چکیں‘ باقی سب کچھ اپنے وقت پر ہو گا‘ سب کچھ اپنے وقت سے پہلے کر رہے‘ الیکشن شیڈول، آر آوز اور ڈی آر آوز کی تعیناتی بھی وقت پر ہو گی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف ہر سیاسی جماعت عام انتخابات میں اپنی بھرپور تیاری کے ساتھ ساتھ کامیابی کے دعوے کر رہی ہے اور دوسری طرف لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے ''دنیا نیوز‘‘ کی سالگرہ کی تقریب میں ملاقات ہوئی تو ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب اپنی مرضی سے نکالتی ہے، سب اپنی پسند کا ماحول اور اپنے مفاد کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں اور ہر پارٹی چاہتی ہے کہ سب کچھ نہ صرف اس کی مرضی کے مطابق ہو بلکہ انتخابی میدان بھی صرف اسی کے لیے ہو۔ اگر ان کی اس بات پر غور کیا جائے تو ایسا ہی نظر آتا ہے کیونکہ کل تک مسلم لیگ (ن) کے جو اتحادی اقتدار انجوائے کر رہے تھے اور کئی اہم وزارتوں کے قلمدان سنبھال کر عوام کے حال و مستقبل کے فیصلے کر رہے تھے‘ وہ بھی آج مہنگائی سمیت تمام مسائل کی ذمہ داری (ن) لیگ پر ڈال رہے ہیں۔ دراصل یہی انتخابی سیاست ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ برسوں سے یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ انتخابی مہم میں مذہبی، اخلاقی، قومی و معاشرتی اقدار کو پس پشت ڈال کر اپنے مخالف امیدواروں اور سیاسی جماعتوں پر سنگین الزام تراشی کی جاتی ہے حالانکہ ماضی میں امیدوار اور سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے دوران اپنے منشور کے ذریعے عام ووٹروں کو متوجہ کرتی تھیں اور اپنے بدترین سیاسی مخالفین کی ذات پر تنقید کو کبھی بھی سیاسی میدان میں قابلِ قبول نہیں سمجھا گیا۔
آج اس موضوع کے انتخاب کا مقصد بھی قوم خصوصاً نوجوان نسل کو یہ سمجھانا ہے کہ آج بھی انہی روایات کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی مخالفت ضرور کریں لیکن کسی پر ذاتی الزام تراشی سے گریز کیا جائے اور سیاسی مخالفت کو ذاتی رنجش اور دشمنی میں تبدیل نہ کیا جائے۔ سیاسی مخالفت صرف الیکشن کے دن پولنگ کے اختتام تک ہو اور اس کے بعد جو بھی جیتے‘ وہی سب کے حقوق کا محافظ بن جائے۔ تادم تحریر پاکستان کی کسی بھی عدالت کی جانب سے انتخابات کے انعقاد بارے کوئی حکم امتناع نہیں آیا بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی حکم دے چکی ہے کہ الیکشن کی تاریخ میں کوئی التوا نہیں ہو گا اور یہ تاریخ حتمی ہے۔ اب الیکشن کمیشن بھی اپنا کام کر رہا ہے، سیاسی جماعتیں بھی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں تو پھر افواہوں پر ہرگز کان نہ دھرے جائیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا فرض ہے کہ اپنے کارکنوں خصوصاً نوجوانوں کو انتخابی مہم میں اخلاقی و معاشرتی اقدار کی پاسداری کا درس دیں اور سوشل میڈیا پر مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خوبصورت سیاسی روایات کو پروان چڑھایا جائے۔