فلسطینیوں کا جذبہ جواں‘ بربادی اسرائیل کا مقدر!

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے‘ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظالموں کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلتی۔ ان شاء اللہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کا انجام بھی بہت برا ہو گا کیونکہ وہ نہتے و معصوم فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں سات اکتوبر سے اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد ساڑھے 17 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ شہدا میں تقریباً 70فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ 46ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں سے قبل بیشتر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے‘ کئی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے ہو چکے تھے اور کئی ریاستوں کیساتھ مذاکرات جاری تھے لیکن اب دنیا جان چکی ہے کہ معصوم اور بے گناہ فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کے پیچھے دراصل اسرائیل‘ امریکہ اور ان کے حامیوں کی اسلام دشمن سوچ کارفرما ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس (قبلہ اوّل) پر حملہ درحقیقت پوری اُمتِ مسلمہ پر حملے کے مترادف ہے اور وہ وقت دور نہیں جب تمام اُمتِ مسلمہ صہیونی قوتوں کا اجتماعی بائیکاٹ کر دے گی۔ اسلامی ممالک کے صرف ایک اعلان‘ کہ ہم اسرائیل کے خلاف صف آرا ہیں‘ کے بعد غاصب ریاست پیچھے ہٹ جائے گی۔ اسلامی ممالک متحد ہو گئے تو اسرائیل کو تیل‘ تجارتی سامان‘ فضائی حدود دینے والے ممالک بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔
ظلم تو یہ ہے کہ تمام صہیونی قوتیں متحد ہیں لیکن اُمتِ مسلمہ تاحال صرف مذمتی بیانات تک محدود ہے حالانکہ جہاد ہمارے ایمان کا اہم جزو ہے‘ بہرحال وہ وقت بھی آنے والا ہے کیونکہ اب اسرائیل اور اس کے حامیوں کی طرف سے ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ ایک طرف اسرائیلی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کو متعدد ملکوں سے فوجی ساز و سامان سے بھرے 200 کارگو طیارے ملے ہیں۔ سات اکتوبر سے اب تک 10 ہزار ٹن سے زیادہ فوجی ساز و سامان اسرائیل پہنچا ہے۔ اس فوجی ساز و سامان میں ہتھیار‘ گولہ بارود اور فوجی گاڑیاں شامل ہیں‘ تاہم اسرائیلی وزارتِ دفاع نے دفاعی امداد دینے والے ملکوں کے نام نہیں بتائے۔ دوسری جانب بمباری کے شکار نہتے فلسطینیوں پر پانی بھی بند ہے‘ رفح کراسنگ سے ادویات اور خوراک پر مشتمل امدادی سامان تک غزہ لے جانے کی اجازت نہیں۔
یو اے ای نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کیلئے قرارداد پیش کی جسے امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ سلامتی کونسل میں پیش کی گئی غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں 15میں سے 13ووٹ پڑے‘ برطانیہ ووٹنگ کے عمل سے باہر رہا۔ امریکہ کی جانب سے قرارداد ویٹو کرنے پر متحدہ عرب امارات نے مایوسی کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وُڈنے موقف اپنایا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے‘ اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔ امریکہ اس مسئلے میں دیرپا قیامِ امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے جس سے دونوں فریق یعنی اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ ہم اس قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے جو غیر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے‘ اس سے صرف ایک نئی جنگ کا بیج بویا جا سکتا ہے۔ قرارداد کو بہتر بنانے کیلئے اس میں حماس کے سات اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنا لیے گئے تھے۔ اس سے قبل امریکہ نے رواں برس اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ جنگ بندی کیلئے برازیل کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔ قرارداد میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حماس کے رہنما عزت الرشق نے کہا کہ امریکہ نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف اپنایا ہے۔ امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں 650سالہ قدیم العمری مسجد کو بھی بمباری سے شہید کر دیا۔ عرب میڈیا نے اسرائیل کی بمباری سے شہید ہونے والی العمری مسجد کی تصاویر شائع کی ہیں جن کی الجزیرہ نے بھی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے غزہ پٹی میں جہاں ہزاروں گھر بھی تباہ ہوئے ہیں‘ وہیں اس کے ساتھ ساتھ خطے کے قدیم ثقافتی مقامات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ خطہ قدیم زمانے سے مصر‘ یونان‘ روم‘ بازنطینی اور مسلم ریاستوں کے زیر تحت تجارت اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ ہیرٹیج فار پیس نامی ادارے کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک غزہ کے 100سے زائد ثقافتی مراکز کو نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو چکے ہیں‘ ان میں فلسطین کی تاریخی مسجد عمری بھی شامل ہے جبکہ دنیا کا تیسرا قدیم ترین چرچ آف سینٹ پورفیریس‘ دو ہزار سال قدیم رومی قبرستان‘ رفح میوزیم اور دیگر قدیم ثقافتی مقامات اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوئے لیکن بے حس دنیا نے ان مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اگر کسی دوسرے خطے میں ایسے کسی ایک مرکز کو بھی نقصان پہنچا ہوتا تو امریکہ سمیت یہودی لابی نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا لیکن غزہ میں ڈھائی جانے والی قیامت پر مغربی ممالک کی خاموشی شراکتِ جرم کے مترادف ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو اس ظلم کی انتہا کا ثبوت ہے اور جب بھی کہیں ظلم اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو پھر ظالموں کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کا پہاڑ ڈھانے والے اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے‘ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور جرمنی سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی فوری روکنے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 13اکتوبر کو جنوبی لبنان میں امریکی‘ عراقی اور لبنانی صحافیوں پر اسرائیلی حملہ صریح جنگی جرم ہے۔ اسرائیل کو معلوم تھا کہ وہ جن لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘ وہ سویلینز ہیں۔ دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 13اکتوبر کو صحافیوں پر اسرائیلی حملے کو ہدفِ تنقید بنایا اور مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے اس حملے کی جنگی جرائم کے طور پر تحقیقات کی جائیں۔ ایمنسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ نے کہا کہ عالمی قوانین کے تحت پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دینے والے کسی صحافی کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ 13 اکتوبر کو غزہ پر جس اسرائیلی حملے میں 43سویلینز شہید ہوئے‘ اس کیلئے امریکہ میں بنا ویپن گائیڈنس سسٹم استعمال ہوا ہے۔ ایمنسٹی نے تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا کہ حملے کے بعد دیر البلا میں ملبے کا معائنہ کرنے پر وہاں سے امریکہ میں بنے جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک میونیشنز گائیڈنس سسٹم (جے ڈیم) کے پرزے ملے ہیں۔ اس حملے میں خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ایسام عبد اللہ جاں بحق جبکہ الجزیرہ کے کیمرہ پرسن ایلی براکھیا اور رپورٹر کارمن جوکھادر سمیت 6 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے دو ماہ کے دوران غزہ پر دس ہزار فضائی حملے کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے حملوں میں مزید تیزی لانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے شمال و جنوب کے رہائشی علاقوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور اقوامِ متحدہ کے شیلٹرز پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کی سرنگوں میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے‘ اس حوالے سے پہلی مرتبہ تصاویر بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ مظلوم فلسطینی اُمتِ مسلمہ کی جانب سے کوئی مشترکہ ٹھوس قدم نہ اٹھانے پر مایوس ضرور ہیں لیکن ان کے جذبۂ جہاد میں ہرگز کمی نہیں آسکی اور ان کا ایمان ہے کہ قبلہ اوّل کی حفاظت اللہ پاک خود کرے گا اور بالآخر تباہی وبربادی اسرائیل کا مقدر بنے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں