بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف اپیلوں پر غیر منصفانہ فیصلہ سنا تے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیدیا ہے۔ اگرچہ بھارتی آئین میں کشمیر کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر قبول کیا گیا تھا جبکہ کشمیر جنت نظیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘ اس کے باوجود گزشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے مودی حکومت کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا حکم برقرار رکھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے 30 ستمبر 2024ء تک الیکشن کرائے جائیں،آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کی بھارت میں شمولیت کو منجمد نہیں کرتا‘ جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ان درخواستوں میں ریاست جموں و کشمیر کو جموں‘ کشمیر اور لداخ کے علیحدہ علیحدہ ریجن میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اس خطے کو بھارت کے وفاق میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا، اس فیصلے سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا اور ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کی گئیں۔ بھارت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی جبکہ مقبوضہ کشمیر کے تین منتخب ممبرانِ پارلیمان، انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی کارکنوں کی طرف سے دائر آئینی درخواستوں میں سوال اُٹھایا گیا تھا کہ کیا کشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمان کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں۔ اس متنازع اقدام سے ایک سال قبل ہی بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی زیر قیادت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت گرا دی تھی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں صدارتی راج نافذ کر دیا تھا‘ جو تاحال جاری ہے۔ اس بنیادی سوال کا بھارتی سپریم کورٹ نے آئین و قانون کی روشنی میں جواب دینے کے بجائے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کا ایسا فیصلہ سنایا جس کی کسی آئینی و قانونی فورم پر کوئی گنجائش نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کیلئے بھارتی فوجیوں کی بھاری تعداد تعینات کر دی گئی ہے جبکہ ہر جگہ بلٹ پروف موبائل بنکر گاڑیاں گشت کرتی نظر آ رہی ہیں۔
مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دیرینہ تنازع ہے جبکہ کشمیری اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ یہ مسئلہ تقسیمِ ہند سے چلا آ رہا ہے اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء‘ دوسری 1965ء‘ تیسری 1971ء اور چوتھی جنگ 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقے‘ جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے‘ پر گولہ باری کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت جاری و ساری ہے۔ کچھ حریت پسند گروپ کشمیر کی مکمل خود مختاری کے حامی جبکہ اکثریت اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے عوام بھی کشمیر کے دونوں خطوں کے یکجا ہونے اور اس کے پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں۔ بھارت کے زیرِ قبضہ مقبوضہ کشمیر میں جموں‘ لداخ اور سیاچن کا علاقہ شامل ہے جبکہ پاکستان کے پاس آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں کشمیری خطہ موجود ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت خطۂ جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوا کرتا تھا جس کی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی‘ وہ پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی‘ وہ علاقے بھارت کو دیے گئے، اس فارمولے کے تحت کشمیر کی ریاست پر پاکستان کا حق تھا مگر کشمیر کا سکھ ڈوگرہ راجہ چاہتا تھا کہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ ہو جائے، لیکن تحریک پاکستان کے رہنمائوں نے اس پلان کو سختی سے مسترد کر دیا۔ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی سرحدوں پر جنگ چھڑ گئی اور متعدد علاقوں پر پاکستانی مجاہدین کا قبضہ ہو گیا تو ڈوگرہ مہاراجہ نے نہ صرف بھارتی فوج سے مدد طلب کی بلکہ تین شرائط پر کشمیر کے بھارت سے الحاق کا اعلان بھی کر دیا۔ اس معاہدے میں کرنسی، دفاع اور مواصلات کے علاوہ ہر معاملے میں کشمیریوں کا جداگانہ اختیار تسلیم کیا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں جواہر لال نہرو کی سفارش پر صدارتی آرڈر کے ذریعے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین اور ٹیکس نظام تسلیم کیا گیا جبکہ یہاں کی نوکریاں بھی مستقل کشمیری باشندوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں۔ بھارت کے کسی بھی علاقے کا کوئی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھا مگر مودی سرکار نے اس شق کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں بھی موجود ہیں‘ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی کشمیر پر پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب بھارت کے وزیراعظم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے۔ اقوام متحدہ کی 13اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں اپنی فوجیں کشمیرسے نکالیں گے اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام اس خطے میں ریفرنڈم ہو گا۔ پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کیا لیکن 14 مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی کہ دونوں ملک بیک وقت اپنی فوجوں کا انخلا شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اور بھارت اپنی فوجیں نکال لیں گے تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھال لے گی اور اقوام متحدہ کا کمیشن ان کی نگرانی کرے گا۔ اس قرارداد میں یہ قطعاً نہیں کہا گیا کہ بھارت کو اپنی فوج یہاں رکھنے کی اجازت ہو گی بلکہ اس قرارداد میں صریحاً کہا گیا کہ صرف اتنے فوجی ریاست میں رکھنے کی اجازت ہو گی‘ جو امنِ عامہ برقرار رکھنے کیلئے مقامی انتظامیہ کی مدد کیلئے ضروری ہوں۔ جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کیلئے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے۔ اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ''ڈینجر ان کشمیر‘‘ کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔ جوزف کاربل کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور وہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین تھے۔ کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی ۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ دوسری جانب بھارت نے جو ''ضروری فوج‘‘ کشمیر میں رکھنے کا اعلان کیا‘ ان کی تعداد اور تعیناتی کا مقام بھی اقوام متحدہ کے کمیشن کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کریں جو ایک ثالث کے سامنے رکھا جائے اور وہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔
اب جلد ہی حریت پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کا فیصلہ بھی آنیوالا ہے، بھارتی عدالتیں اسوقت نریندر مودی سرکار کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔ یٰسین ملک کیس کا فیصلہ بھی عین متوقع ہے‘ یٰسین ملک کی فیملی کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا گیا جبکہ انٹرنیشنل میڈیا کو اس مقدمے کی رپورٹنگ کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ اسوقت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو اب بھارتی سپریم کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جانا اور اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔