2023ء کا سال ملی جلی تلخ و خوشگوار یادوں کے ساتھ تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے بلکہ لگ بھگ اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ دنیا بھر میں نئے سال کے استقبال کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاکستان میں نئے سال کا آغاز کل 31 دسمبر کی رات 12 بجے ہو گا مگر دنیا کے کئی ممالک میں نیا سال وطن عزیز سے لگ بھگ 9 گھنٹے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے 2024ء کا آغاز وسطی بحرالکاہل کے جزائر ٹونگا اور کیریباتی میں ہوگا، جہاں پاکستانی وقت سے نو گھنٹے قبل ہی نیا سال شروع ہو جائے گا۔ ان جزائر میں پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے 3 بجے نیا سال شروع ہو جائے گا، ان جزیروں میں زیادہ انسانی بستیاں نہیں ہیں اس لیے یہاں پر نئے سال کا آغاز اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔ ٹونگا اور کیریباتی کے بعد نئے سال کا آغاز نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ میں ہو گا پاکستانی وقت کے مطابق 31 دسمبر کی شام 4 بجے نیوزی لینڈ میں نیا سال شروع ہو جائے گا۔ نیوزی لینڈ دنیا کا وہ پہلا بڑا اور معروف ملک ہے جہاں سب سے پہلے نئے سال کا سورج طلوع ہوتا ہے جبکہ آکلینڈ نیوزی لینڈ کا وہ پہلا شہر ہے جہاں سالِ نو کا آغاز سب سے پہلے ہوتا ہے۔
اس کے بعد روس کے دور دراز جزائر میں نئے سال کا آغاز ہو گا جہاں پاکستانی وقت کے مطابق 31 دسمبر کی شام 5 بجے کے نیا سال شروع ہو جائے گا۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں نئے سال کا آغاز ہو گا اور پاکستان کے وقت کے مطابق شام 6 بجے آسٹریلیا میں نیا سال شروع ہو جائے گا۔ آسٹریلیا کے بعد جاپان، اس کے بعد جنوبی کوریا اور اس کے قریبی ممالک میں نئے سال کی شروعات ہو جائے گی۔ جاپان، شمالی کوریا، فلپائن، چین، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، میانمار، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور بھارت کے بعد پاکستان میں نئے سال کا آغاز ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں سال 2024 ء کا آغاز دیگر ممالک کے مقابلے 25 گھنٹے یعنی ایک دن کے بھی بعد ہو گا۔ دنیا میں نئے سال کے آغاز کے25 گھنٹے بعد ''امریکن سمووا‘‘ میں نئے سال کا آغاز ہو گا، اگرچہ اس کے ایک گھنٹے بعد بیکر آئی لینڈ دنیا کا وہ آخری مقام ہوگا جو 2024ء میں داخل ہو گا مگر وہاں چونکہ کوئی آبادی نہیں ہے‘ لہٰذا وہاں کوئی اس کا خیرمقدم کرنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی امریکن سمووا کے رہائشی ہی سب سے آخر میں نئے سال کا جشن منائیں گے۔ واضح رہے کہ امریکن سمووا جنوبی پیسفک میں واقع ایک جزیرہ ہے جو امریکی حکومت کے زیر قبضہ ہے اور اس کی آبادی 45 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
سالِ نو کے استقبال کے لیے نیو ایئرنائٹ منانا ایک مغربی روایت ہے، اس موقع پر منچلے جس قسم کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں‘ انہیں ہماری روایات اور ثقافت کے برعکس سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں نئے سال کے آغاز پر آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کرکے خوشی منائی جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود وطنِ عزیز میں نیو ایئرنائٹ کی زیادہ تر تقریبات کا اہتمام اپنی ثقافتی روایات سے ہٹ کر کیا جاتا ہے۔ منچلے رات بھر سڑکوں پر وَن ویلنگ کر کے شہریوں کا ناک میں دم کیے رکھتے ہیں، ڈھول باجے ، آتش بازی اور ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے جس میں متعدد قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں جبکہ متعدد بار پولیس نے اس رات چھلکتے جام بھی الٹ دیے، یقینا یہ سب کچھ ہمارے ملک میں غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی بھی ہے۔ اس بار نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے نئے سال کی آمد پر ہر قسم کی تقریبات پر پابندی کا اعلان کرکے یقینا دنیا کو ایک مثبت اور جامع پیغام دیا ہے۔ نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے نئے سال کی آمد پر ہر قسم کی تقریب پر پابندی عائد ہو گی۔ فلسطین کی صورتِ حال کے باعث پوری قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔ غزہ کے لیے حکومتی امداد کی تیسری کھیپ روانہ کی جا رہی ہے، پوری قوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
نیو ایئر منانے کی روایت کسی مستند تہذیب سے نہیں ملتی، اس کا کھرا برطانیہ کی رائل نیوی کے منچلے نوجوان سے جا ملتا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رائل نیوی کے نوجوان اکثر بحری جہاز پر دور دراز کا سفر کیا کرتے تھے۔ اس طویل سفر کی وجہ سے ان کی طبیعت اکثر خراب ہو جاتی تھی۔ سبھی افراد بوریت اور اکتاہٹ کا شکار ہو جایا کرتے تھے؛ چنانچہ وہ اپنی بوریت اور اکتاہٹ کو ختم کرنے کے لیے کبھی ایک دوسرے کی سالگرہ پر جشن منایا کرتے تھے تو کبھی اپنے بچوں کی سالگرہ منایا کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے سبھی گھر والوں کی سالگرہ منایا کرتے تھے لیکن اپنی‘ اپنے سارے خاندان کی سالگرہ منانے کے بعد بھی چونکہ ان کا سفر باقی ہوتا تھا تو ان ساری تقریبات سے فارغ ہوکر بھی ان کی بے چینی ختم نہیں ہو پاتی تھی اور وہ مسلسل بوریت کا شکار رہتے تھے، اسی لیے انہوں نے اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ خوشی منانے کا ایک نیا طریقہ اپنایا، وہ یہ کہ وہ لوگ اپنے پالتو جانوروں کی بھی سالگرہ منانے لگے، پھر جب یہ چیزیں بھی ان کی اکتاہٹ ختم نہ کر سکیں تو اتفاقاً ایک سفر میں جب دسمبر کا مہینہ اپنی منزلیں طے کرتا ہوا اپنی انتہا کو پہنچنے کے قریب تھا‘ اچانک ان نوجوانوں میں سے ایک کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم نئے سال کا استقبال کریں، کیوں نہ اس کی آمد پر بھی بھرپور خوشی کا اظہار کریں اور نیو ایئر نائٹ منا کر نئے سال کو خوش آمدید کہیں اور سالِ نو کی آمد پر جشن منائیں۔ چنانچہ دسمبر کی اکتیس تاریخ کو جہاز کا سارا عملہ جمع ہو گیا اور جہاز کو خوب آراستہ کیا گیا، موسیقی بجائی گئی، ناچ گانے کا اہتمام کیا گیا اور رات کو ٹھیک بارہ بجے تمام لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خوشی کا اظہارکرتے ہوئے ایک دوسرے کو ہیپی نیو ایئر کہہ کر مبارکباد پیش کی۔ وہیں سے اس رسمِ بد کا آغاز ہوا۔ اس سے بعد سے یہ ایک روایت بن گئی اور ہر سال اس جشن کے لیے نت نئی خرافات کا اہتمام کیا جانے لگا۔ اسی طرح ایک بار 31 دسمبر کو رات ٹھیک بارہ بجے‘ کھلے اندھیرے سمندر میں جہاز کی تمام لائٹس بند کر دی گئیں جس سے تمام مسافرین کی چیخیں نکل گئیں، مگر پھر یکایک جہاز کو دوبارہ روشن کیا گیا اور جہاز کے کپتان نے اپنے ہاتھ میں کیک لے کر سب کو نیو ایئر کی مبارک باد دی اور تمام لوگوں نے تالیاں بجاکر خوشی سے کپتان کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد اس میں مزید اضافہ یہ ہوا کہ لوگ اپنی بیویوں اور منگیتروں کے ہمراہ سکاٹ لینڈ کے اناڈین ساحل پر جمع ہو جاتے، جہاں گانے بجانے کی محفل سجائی جاتی تھی۔ اس طرح ''ہپی نیو ایئر‘‘ کی تقریبات کی اخلاق سوز رسم پروان چڑھتی گئی اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ہر ملک کی مقامی روایات سے مل کر نت نئی رسومات بھی سامنے آتی رہیں۔ آج نیو ایئر نائٹ کا اہتمام لگ بھگ پوری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک میں اس موقع پر دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان اور ایک مہذب معاشرہ کے ہمیں اس غیر شرعی اور غیر اسلامی روایت کو ترک کرکے نئے سال کی آمد کے موقع پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ جب ہمارا قبلۂ اول ہی آزاد نہیں اور اس کے رکھوالے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور 2023ء کا سال ہمارے لیے مختلف حوالوں سے انتہائی دردناک یادیں چھوڑ کر جا رہا ہے تو ایسے میں نئے سال کی خوشی منانے کا کوئی جواز نہیں، لہٰذا ہمیں نیو ایئر نائٹ اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی اور امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے دعائیں مانگتے ہوئے گزارنی چاہیے۔