غزہ پر امریکہ سمیت بعض عالمی طاقتوں کی مدد سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کو یقینی طور پر صہیونی قوتوں کی عالمی دہشت گردی قرار دیا جا سکتاہے۔ آج غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور معصوم فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کو تین ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک طرف اُمتِ مسلمہ کا قبلۂ اوّل (بیت المقدس) یہودیوں کے قبضے میں ہے‘ مسلمانوں کو قبلۂ اوّل میں داخلے اور عبادت کی آزادی نہیں‘ بیت المقدس کے رکھوالوں کی مسلسل نسل کشی کی جا رہی ہے‘ عالمی برادری کو غزہ تک ادویات‘ خوراک اور دیگر امدادی سامان پہنچانے کی بھی اجازت نہیں‘ قابض اسرائیلی افواج غزہ میں سکولوں‘ ہسپتالوں‘ پناہ گزین کیمپوں اور عالمی امدادی اداروں کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہی ہیں اور مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف دنیا کے 78 اہم ممالک کے حکمران‘ سیاسی قیادت اور عوام انتخابات کی بھرپور سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ قابض اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ملک امریکہ میں بھی صدارتی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے اور بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ناجائز اسرائیلی تسلط اور جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ کسی مسلمان ملک میں کوئی معمولی واقعہ پیش آنے پر بھی دنیا بھر میں واویلا مچا دینے والی نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی اس عالمی دہشت گردی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے ان کا بھیانک چہرہ اور اصل حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ بھی اپنے وجود کا اخلاقی جواز کھو چکا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی افواج کی جانب سے عالمی دہشت گردی کی سہ ماہی مکمل ہونے پر حماس میڈیا آفس نے اسرائیلی دہشت گردی سے متعلق اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے 90دنوں کے دوران 1876 حملے کیے۔ 90 دن میں شہید اور لاپتا فلسطینیوں کی تعداد 29ہزار 438ہو چکی ہے۔ غزہ سے 22ہزار 438 شہدا کی میتیں ہسپتالوں میں لائی گئیں۔ اسرائیلی حملوں میں 9ہزار 730بچے اور 6ہزار 830خواتین شہید ہوئیں۔ غزہ میں326ڈاکٹرز اور طبی عملے کے 326‘ سول ڈیفنس کے 42اراکین اور 106صحافی شہید ہوئے۔ سات ہزار فلسطینی لاپتہ ہیں جن میں 70فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں 57 ہزار 614افراد زخمی ہوئے۔
اس وقت غزہ میں چھ ہزارسے زائد شدید زخمیوں کو علاج کے لیے فوری طور پر سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک صرف 645 زخمی علاج کے لیے غزہ سے باہر لے جائے گئے ہیں۔ غزہ میں کینسر کے 10ہزار مریضوں کو موت کے خطرے کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحت کے 99اہلکار گرفتار اور 10صحافی حراست میں لیے گئے ہیں۔ غزہ میں 19لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ تین لاکھ 55ہزار افراد نقل مکانی کے نتیجے میں متعدی بیماریوں سے متاثر ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے 130 سرکاری عمارتیں‘ 93یونیورسٹیاں اور سکول تباہ کیے۔ 292سکول اور یونیورسٹیاں جزوی طور پر تباہ جبکہ 122 مساجد کو شہید کیا گیا اور 218کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ تین گرجا گھروں کو بھی اسرائیلی فوج نے تباہ کر دیا ہے۔ 65ہزار ہاؤسنگ یونٹ مکمل اور دو لاکھ 90ہزار گھر جزوی تباہ ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے 90دن میں 65ہزار ٹن بارود غزہ پر برسایا۔ اسرائیلی فوج نے 30ہسپتالوں کو مکمل غیر فعال کر دیا۔ صحت کے 53مراکز مکمل تباہ اور 150مراکز کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ قابض فوج نے 121ایمبولینسیں تباہ کر دیں۔ دو سو آثارِ قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے مقامات اسرائیلی حملے میں تباہ ہوئے۔
پناہ گزین کیمپوں پر تاحال اسرائیلی طیاروں کی بمباری جاری ہے۔ گزشتہ روز ہونے والی بمباری سے مزید 162 فلسطینی شہید اور 296 افراد زخمی ہو گئے۔ غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی بمباری سے پورا خاندان شہید ہو گیا۔ صہیونی فورسز کی جانب سے اسلامی جہاد کے آپریشنل کمانڈر ممدوح لولو کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 24گھنٹوں میں 100سے زائد فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ جنگ کے بعد غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس نہیں رہنے دیں گے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ نے جمعرات کو کہا تھا کہ فوجی دستے شمالی غزہ کی پٹی میں جلد ہی فضائی حملے کرنے کے مقصد سے خود کو دوبارہ منظم کر رہے ہیں۔
چار روز قبل لبنان کے دارالحکومت میں مقیم حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری اسرائیل کے ایک حملے میں چھ افراد سمیت شہید ہو گئے تھے لیکن اس پُراسرار حملے سے متعلق تفصیلات سامنے نہیں آ سکی تھیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے لبنان میں حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کی شہادت کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تاہم اس کے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے بس اتنا ہی بتایا تھا کہ حماس کے سرگرم رہنما صالح العاروری کو انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے مزید سوالات کے جوابات دینے سے معذرت کر لی تھی۔ دوسری جانب لبنانی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ جنوبی بیروت کے علاقے میں ایک گھر پر اسرائیلی ڈرون حملے میں صالح العاروری شہید ہو گئے تاہم اسرائیلی فوج نے صالح العاروری کی شہادت کی وجہ ڈرون حملہ ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔ اب اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ صالح العاروری کی لبنان میں عارضی رہائش گاہ کو اسرائیلی فوج کے جیٹ طیارے سے داغے گئے چھ گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ لبنانی ذرائع کے مطابق اسرائیلی جیٹ طیارے سے داغے گئے 100‘ 100 کلو گرام کے چھ گائیڈڈ میزائلوں میں دو اس عمارت کو لگے جہاں صالح العاروری مقیم تھے۔
اسرائیلی مظالم پر جن طاقتوں کو اپنا سخت ردعمل کااظہار کرنا چاہیے تھا وہ تو پُراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یا صرف سیاسی بیان بازی تک مذمت کر رہی ہیں تاہم امریکی محکمۂ تعلیم کے سینئر افسر نے صدر جوبائیڈن کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی حمایت کرنے کے خلاف احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ محکمۂ تعلیم کے دفتر برائے منصوبہ بندی‘ تشخیص اور پالیسی کے معاونِ خصوصی طارق حبش نے سیکرٹری تعلیم میگوئل کارڈونا کو اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ میں بے گناہ فلسطینیوں کی زندگیوں پر ہونے والے مظالم پر امریکی صدر اور انتظامیہ کی آنکھیں بند ہونے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اور نہ اس عمل کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ طارق حبش نے استعفے کے متن میں مزید لکھا کہ انسانی حقوق کے سرکردہ ماہرین بھی اسرائیلی حکومت کی کارروائیوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم قرار دے رہے ہیں لیکن امریکی حکومت چپ سادھے ہوئے ہے۔ وہ ایک فلسطینی نژاد امریکی ہیں جو طلبہ کیلئے تعلیمی قرض اور سکالر شپ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور انہی صلاحیتوں کی بنیاد پر امریکی صدر جوبائیڈن نے طارق حبش کو محکمۂ تعلیم میں معاون مقرر کیا تھا۔ غزہ پر امریکہ کی پالیسی پر یہ پہلا استعفیٰ نہیں‘ اس سے قبل اکتوبر میں بھی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق اہلکار جوش پال نے احتجاجاً استعفیٰ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ صدر جوبائیڈن اسرائیل کی اندھی حمایت کر رہے ہیں۔
مغربی طاقتوں سے اچھائی کی توقع رکھنا تو فضول ہی ہے لیکن اصل مسئلہ اسلامی ممالک کی جانب سے کوئی مشترکہ ٹھوس حکمت عملی نہ اپنانا ہے۔ ادھر غزہ میں اسرائیلی جنگ کے تین ماہ مکمل ہونے پر متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ سٹریٹجک نوعیت کے فیصلے کی بنیاد پر کیا تھا‘ اس لیے انہیں غزہ میں جاری جنگ کے باوجود اور ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ یہی اُمتِ مسلمہ کا المیہ ہے۔