شہریوں کیخلاف جھوٹے مقدمات ، پولیس کارکردگی پر سوالات
فیصل آباد(عبدالباسط سے )پولیس کی جانب سے شہریوں کو مبینہ طور پر غیر قانونی حراست میں رکھنے ، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کے خلاف مبینہ طور پر جھوٹے مقدمات کا اندراج کرتے ہوئے اپنے مطالبات پورے کروائے جانے کے واقعات پھر سامنے آنے لگے ۔
پولیس اہلکاروں اور افسروں کی جانب سے مبینہ طور پر مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں شہریوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا اندراج کرتے ہوئے ان کے خلاف مبینہ بوگس کرائم ریکارڈ بھی بنایا جانے لگا۔پولیس کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔مختلف تھانوں کے علاقوں میں پولیس افسروں اور ملازمین کی جانب سے شہریوں کو بلا جواز گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھتے ہوئے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مبینہ طور پر پیسوں کے مطالبات کیے جاتے ہیں اور انکار پر شہریوں کے بلاجواز کرائم ریکارڈ بھی بنا دیئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک ہفتے کے دوران شہریوں کو مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنانے ، ہراساں و پریشان کرنے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کے دو واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ تھانہ پیپلز کالونی کے علاقے جی ٹی ایس چوک سے ملحقہ نجی ہوٹل میں مبینہ طور پر غیر اخلاقی حرکات کرنے والے جوڑے کو پکڑ کر چوکی طارق آباد پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر ان کے خلاف بدکاری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی بجائے لڑکی کو بغیر کار روائی کئے چھوڑ دیا گیا، جبکہ لڑکے کے خلاف منشیات فروشی کا مبینہ بوگس مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جبکہ دوسرے واقعہ میں تھانہ مدینہ ٹاؤن کے علاقے سے سی آئی اے ٹاؤن انچارج صدیق چیمہ اور اس کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے مبینہ طور پر نعیم نامی شہری کو حراست میں لیا گیا اور مبینہ طور پر اس کی رہائی کے عوض اس کے اہلخانہ سے پانچ لاکھ روپے بھتے کا مطالبہ کیا گیا۔ متاثرہ شہری کے ورثاء کی جانب سے مبینہ طور پر دو لاکھ روپے ادا کر دئیے گئے اور دیگر رقم ادا کر نہ کرنے کی وجہ سے اس کے خلاف منشیات فروشی کی دفعات کے تحت مبینہ جھوٹا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ شہریوں کو بلا جواز مقدمات میں پھنسانے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آنے کے باعث شہری پولیس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ معاملے سے متعلق سی پی او کامران عادل کے مطابق دونوں واقعات میں ملوث پولیس افسروں اور ملازمین کے خلاف مقدمات کا اندراج کرتے ہوئے محکمانہ اور قانونی کارر وائیاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ جبکہ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے افسروں و ملازمین کے خلاف بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔